مجھے ووٹ دیں!

فرخ اظہار  پير 11 فروری 2013
بھارتی رئیلٹی شوز کے نتائج پر کئی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

بھارتی رئیلٹی شوز کے نتائج پر کئی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ایسا بھی ہواکہ انڈین ٹی وی چینلوں کے ریالٹی شوز کے حاضرین اور ناظرین فیصلہ کُن مرحلے میں فاتح کا نام جان کر دنگ رہ گئے، کیوں کہ مقابلے کے دوران انھیں گُمان تک نہیں ہوتا تھا کہ یہ فاتح قرار پائے گا۔

گذشتہ چند برس کے دوران متعدد ریالٹی شو اس کا شکار ہوئے اور کہا گیا کہ کسی مرحلے پر دھاندلی ضرور ہوئی ہے۔ پروڈیوسر ان الزاما ت سے یوں بری ہو جاتا کہ یہ ناظرین کے ووٹوں کا کمال ہے اور ان کی رائے کا احترام سبھی کو کرنا چاہیے۔ مسئلہ دراصل ووٹ کا ہے، جو موبائل فون پر مختصر برقی پیغام کی صورت میں اور ٹیلی فون کالوں کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بحث آج بھی جاری ہے۔ ناقدین کا سوال ہے کہ کیا ججوں کی موجودگی میں ناظرین کے ووٹوں کی بنیاد پر فاتح قرار دیا جانا درست ہے؟ یہ عمل مسئلہ کیوں بن گیا، اس کی وجہ مقابلے کے شرکاء کا زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے غیرمناسب طریقے استعمال کرنا ہے۔ ان میں اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد سے منصوبہ بندی کے ذریعے ووٹ حاصل کرنا قابل ذکر ہے۔ اس سلسلے میں شوبزنس کی دنیا کے ستاروں سے مختصر گفت گو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

نچ بلیے ٹو کی شکست خوردہ گوری ٹونک کہتی ہیں،’’میں اپنی شکست پر نہا یت حیران تھی۔ میں ایس ایم ایس ووٹنگ کے خلاف نہیں، لیکن ہمیں ووٹرز کو ضابطے کا پابند بنانا چاہیے۔ اکثر ناظرین پرفارمینس کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں۔ یہ عمل ریالٹی شو کی حیثیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘

ایک مقابلۂ گائیکی ’’جنون‘‘ میں ہرش دیپ کی جیت پر جج نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، اسے پبلک ریلیشن شپ کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کے برعکس فاتح نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کا منفی حربہ استعمال کرنے کی تردید کی تھی۔

ایک دل چسپ مثال پروگرام چھوٹے استاد کی ہے، جس میں ایک صاحب اپنی بیٹی کے شو سے باہر ہونے پر پھٹ پڑے اور یہ بھی کہہ دیاکہ انھوں نے بیٹی کے حق میں برقی ووٹوں کے حصول کی خاطر 75,000 روپے خرچ کیے تھے اور ایسا نہیں ہو سکتاکہ وہ ناکام ہو جائے۔ اس انکشاف سے زبردست بحث نے جنم لیا۔ تاہم یہ معاملہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا، جب ایک پروگرام کی مشہور جوڑی راہ چلتے ہوئے ریالٹی شو کے شایقین کو سِم کارڈ تقسیم کرتے ہوئے دکھائی دی۔ ان کا عوام سے اصرار تھاکہ وہ مفت سم کارڈ کے بدلے میں انھیں زیادہ سے زیادہ ووٹ دے کر مقابلے میں کام یاب بنائیں۔ یہ ایک عجیب اور دل چسپ مطالبہ تھا، ساتھ ہی ایک قسم کی بے ایمانی اور دھوکا بھی تھا۔ اس کا نقصان ریالٹی شو کے دیگر شرکاء کو ہوتا، جو دن رات محنت کر کے پرفارمینس کا مظاہرہ کر رہے تھے اور حقیقی فاتح بننے کے خواہش مند تھے۔

اس ضمن میں ابھیجیت بھٹاچاریہ نے مختلف بات کی۔ وہ کہتے ہیں،’’ ووٹنگ ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس سے پرفارمرکو یہ احساس ہوتا ہے کہ اسے دُور دُور تک دیکھا جا رہا ہے، اور اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ البتہ اس سارے سسٹم پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ اس میں دھاندلی اور دھوکا دہی کا امکان واضح ہے۔ کسی بھی سطح پر اسے نظر انداز کرنا پروگرام کا مقصد کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ دیکھا گیا ہے کہ یہ ووٹنگ اکثر آخری مر حلے میں ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ججز چند باصلاحیت شرکاء کو منتخب کرتے ہیں اور یہ انتخاب ان کی پچھلی اقساط میں پرفارمینس پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں رقص کی ملکہ سروج خان کاکہنا ہے کہ اصل ووٹوں کو ججوں کے سامنے ظاہر کیا جانا چاہیے، اسی صورت میں ہم اسے ریالٹی کہیں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہاکہ دوست احباب کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے، مگر دوسروں کو اس پر اکسانا اور اس کے لیے اوچھے ہتھ کنڈے استعمال کرنا قابلِ نفرت اور افسوس ناک امر ہے۔

یہ حقیقت بھی نہایت اہم ہے کہ ٹی وی چینل کی انتظامیہ فون کالز اور ایس ایم ایس کی جانچ کے عمل میں کسی کو شریک نہیں کرتی اور ججوں نے بھی اس سلسلے میں کبھی دل چسپی نہیں لی۔ یہ ان کا حق ہے، کیوں کہ یہ ان کی ساکھ کا معاملہ بھی ہے۔ تاہم ماضی میں اس طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی تھی، جسے بنیاد بنا کر ایسا کیا جاتا یا اس سلسلے میں جج اور انتظامیہ سوچ بچار کرتی۔

میانگ چینگ، جسے 2007 کے شو میں انڈین آئیڈل بنانے میں ناظرین نے دل چسپی نہیں لی تھی، کہتا ہے، ’’میں چاہوں گاکہ ہم ووٹ دیتے ہوئے دیانت داری سے کام لیں، ووٹ سسٹم ختم نہیں کرنا چاہیے، مگر لوگوں کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ذات اور نسل کی بنیاد پر ووٹ کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ ناظرین کی ووٹنگ کی کیا ضرورت ہے، کہیں یہ چینل کی آمدنی کا ذریعہ تو نہیں؟ پروڈیوسر اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شو کا حُسن اور ان کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی ووٹر کے کئی ووٹ موصول ہونے کی صورت میں انھیں مسترد کرنے نظام مضبوط ہونا چاہیے۔ دوسری طرف اسے کسی پروگرام کی ویور شپ کا اندازہ لگانے کا ذریعہ بھی بتایا جاتا ہے۔ یہ بحث آج بھی جاری ہے، لیکن ریالٹی شوز پر اس کے خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔