میٹرو بس …تنقید نہیں سبق حاصل کریں

ایاز خان  پير 11 فروری 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

میٹرو بس سروس کا منصوبہ مکمل ہو گیا اور بس بھی چل پڑی۔گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والے اس منصوبے پر تنقید کے بھی نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔کسی نے اسے جنگلہ بس کہا تو کوئی یہ کہتا سنا گیا کہ اس منصوبے سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے منصوبے پر 30ارب خرچ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ پرویز الٰہی کہتے ہیں 70ارب روپے خرچ کر دیئے گئے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ منصوبے پر 90ارب روپے کا خرچہ آیا ہے۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اگر واقعی 70یا 90ارب روپے خرچ ہوئے تو پھر پنجاب حکومت نے اضافی 40 تا 60ارب روپے کہاں سے خرچ کردیئے۔5‘7ارب اضافی خرچ ہوں تو اور بات ہے، اتنی بڑی رقم کسی اور مد میں خرچ کر کے چھپائی نہیں جا سکتی۔

یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت اس بس کو چلانے کے لیے ہر ماہ ایک ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔دنیا میں جہاں کہیں بھی حکومتیں اپنے عوام کو سفری سہولتیں مہیا کرتی ہیں وہاں سبسڈی ضرور دی جاتی ہے۔اگر کسی نے کوئی اعتراض کرنا ہی تھا تووہ یوں ہو سکتا تھا کہ اس میں کرپشن کی گئی۔اگر کوئی ثبوت کے ساتھ کرپشن کا الزام لگاتا تو سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ اضافی خرچ کا الزام بے معنی ہے۔ اس سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ آپ کے پاس اعتراض کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس لیے ادھر ادھر کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بس سروس آئیڈیل ہے اور اس میں سرے سے کوئی خامی نہیں ہے۔ جتنی کم مدت میں یہ منصوبہ مکمل کیا گیا ہے اس میں کچھ خامیوں کا رہ جانا ناقابل فہم نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ لاہور کی نشتر کالونی میں میٹرو بس سروس کی افتتاحی تقریب میں ترکی کے نائب وزیراعظم کے اس اعتراف کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ لاہور میٹرو کا منصوبہ ترکی سے بہتر ہے۔ استنبول کے ڈپٹی میئر نے اس کی ریکارڈ مدت میں تکمیل پر حیرت کا اظہار کیا۔مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ لاہور کی ایک سڑک پر اتنی رقم کیوں خرچ کر دی گئی۔ ظاہر ہے اس منصوبے کی لاہور میں ہی ضرورت تھی۔ ایک کروڑ آبادی کے اس شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل تھے، اس لیے یہ منصوبہ بنایا گیا۔ یہ بھی پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ جتنا بڑا شہر ہوتا ہے اس میں اتنے زیادہ ترقیاتی کام ہوتے ہیں۔ امریکہ میں نیو یارک میں میٹرو ٹرین چلتی ہے۔ شکاگو میں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ دہلی میں میٹرو ٹرین ہے۔ چندی گڑھ میں نہیں ہے۔اسی طرح اور بھی مثالیں ہیں لیکن فی الوقت یہ دو مثالیں ہی کافی ہیں۔

افتتاحی تقریب کے بعد میٹروبس میں سفر سے اندازہ ہوا کہ لاہوریوں نے اس کا والہانہ استقبال کیا۔ ان کا جوش و خروش دید کے قابل تھا۔27کلو میٹر کے اس سفر میں 27ہی اسٹیشن ہیں۔ دو طرفہ سفر میں ہم نے 54کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ راستے میں دونوں طرف 90 فیصد مکانوں کی چھتوں پر بچے عورتیں جوان اور بزرگ کھڑے ہو کر ان بسوں کو گزرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ وہ ہاتھ ہلا کر اور تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ سڑکوں پر رقص الگ سے جاری تھا۔ مختلف اسٹیشنوں پر بھی لوگوں کا ہجوم نظر آیا لیکن ان کے بارے میں کہا جا سکتا کہ ان کی اکثریت ن لیگ کے کارکنوں پر مشتمل تھی۔ چھتوں پر موجودعام شہری جن کی کسی سیاسی پارٹی سے کوئی وابستگی نہیں وہ صرف اس بات سے خوش تھے کہ ان کے شہر میں ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت میسر آ گئی ہے۔

ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔انھیں لایا نہیں گیا تھا وہ چھتوں پر شوق سے چڑھے تھے۔جنگلے کے باہر دونوں طرف کی سڑکوں پر موٹرسائیکل، کار اور بس سوار اور پیدل چلتے ہوئے لوگ بھی ہاتھ ہلا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ گجومتہ سے شاہدرہ تک میلے کا سماں تھا۔ اہل لاہور کی باڈی لینگویج سے لگتا تھا کہ انھیں کوئی بہت بڑا تحفہ مل گیا ہے۔ ایک ایسا تحفہ جس کا انھوں نے برسوں انتظار کیا ہے۔ فیروز پور شہر کی مصروف ترین شاہراہ ہے۔یہاں کے بس اسٹاپوں پر ہمیشہ ایک ہجوم نظر آتا ہے۔ میٹروبس سے روزانہ ہزاروں مسافروں کوآمدورفت میں آسانی ہوگی۔بسیں اور ویگنیں کم ہوجائیں گی تو سڑک پر رش بھی کم ہو جائے گا۔ اس بس سروس پر تنقید کرنے والوں کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لیے کسی ایسے منصوبے کی تیاری کریں۔ دو کروڑ افراد پر مشتمل شہر لاہور سے زیادہ اس طرح کے کسی منصوبے کا حق دار ہے۔سنا ہے، کراچی میں قیام پاکستان سے پہلے اور کئی برس بعد تک ٹرام چلتی تھی، یہ اس وقت کے کراچی کے پارسی اور ہندو ایڈمنسٹریٹروں کا کارنامہ تھا۔

بعد میں ’’لاکھوں جانوں‘‘ کی قربانیاں دے کر آنے والے مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ میرے اور آپ کے سامنے ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ٹرام اب سب وے ٹرین سروس میں تبدیل ہوچکی ہوتی ، افسوس ایسا نہیں ہوا بلکہ جو ٹرام چلتی تھی ، وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گئی۔اس شہر اور سندھ پر تو کسی پنجابی کی حکومت نہیں رہی،پھر ایسا کیوں ہوا، اس سوال کا جواب مجھے نہیں سندھ اور کراچی کے باسیوں کو ضرور پوچھنا چاہیے تاکہ حکمرانوں کو پتہ چلے کہ ان کا محاسبہ ہوسکتا ہے۔ دوسروں پر الزام لگا کر اپنی ناکامیوں کو چھپانا سیاست نہیں ہے۔

افتتاحی تقریب کے بعد بسوں میں ابتدائی ’’مفتے‘‘ مسافروں کو بٹھانے کی ترتیب طے کرنے والوں کو بھی داد دینا پڑتی ہے۔ انھوں نے میڈیا کے لیے چار نمبر بس کا انتخاب کیا۔ چار نمبر بس کا سنتے ہی ہمیں ماضی یاد آ گیا۔پیدائشی لاہوریوں کے علاوہ جن لوگوں نے یہاں کچھ عرصہ قیام کیا ہے ، انھیں بھی چار نمبر بس یاد ہوگی ۔ایک وقت تھا جب ریلوے اسٹیشن سے گلبرگ تک ایک اومنی بس چلا کرتی تھی۔اس بس کا نمبر 4ہوتا تھا۔اس روٹ پر جیل روڈ پر ایک اسٹاپ مینٹل ہاسپٹل کا بھی آتا تھا۔ جب یہ اسٹاپ آتا تو کنڈکٹر آواز لگاتا پاگل خانے والے اتر جائیں۔ اس دور میں اگر کسی شخص کی ذہنی حالت پر شک کا اظہار کیا جاتا تو کہتے کہ اس کو چار نمبر میں بیٹھا دو۔ اب پتہ نہیں ایسا معصومیت میں کیا گیا یا کسی نے جان بوجھ کر بدلا لیا۔ جو بھی ہوا ، چلو اس بہانے اپنے لڑکپن کے دن یاد آگئے۔ کیا زمانہ تھا، مجھے لاہور اس وقت بھی حسین لگتا تھا اور اس کا حسن آج بھی لشکارے مار رہا ہے۔واقعی جس نے لاہور نہیں دیکھا، اس نے کچھ نہیں دیکھا۔

میٹرو بس کے مخالفوں کا ایک اور اعتراض یاد آگیا، وہ کہتے ہیں لاہور میں میٹرو ٹرین چلانی چاہیے تھی۔بالکل ایسا ہونا چاہیے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی اپنی ساکھ کیا ہے؟ ان کے دور حکومت میں تو پاکستان ریلوے کی روایتی ٹرین سروس کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا۔اگر پانچ برسوں میں پاکستان ریلوے مثالی سروس بن جاتی تو ان کے اعتراض میں یقیناً وزن ہوتا ۔ ریلوے کے علاوہ دیگر اداروں کی حالت زار پر بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔

میٹروبس سروس کی افادیت وقت کے ساتھ ثابت ہوگی۔موٹروے کی تعمیر پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ اعتراض کرنے والے کوئی ایک بڑا منصوبہ ہی بنا لیتے اس دور میں تو ان کی تنقید قابل غور ہوتی۔ اب تو محض تنقید برائے تنقید ہے۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ شہباز شریف نے میٹرو بس سروس کے اجراء سے لاہور کی سیٹیں پھر نواز شریف کی جھولی میں ڈال دی ہیں۔ وقت پر الیکشن ہو گئے تو آپ خود دیکھ لیجئے گا۔فی الحال تو لاہوریے اس اعزاز پر خوش ہیں کہ ان کا شہر بھی دنیا کے ان شہروں میں شامل ہوگیا ہے ، جہاں میٹرو بسیں چلتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔