امریکی قول و عمل کے تضادات

ظہیر اختر بیدری  پير 11 فروری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا کی نئی حکومت کے وزیر خارجہ جان کیری نے نئی حکومت کی نئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک مثبت بات یہ کی ہے کہ ’’دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا پڑے گا‘‘ امریکا ایک سپر پاور ہے اس کی پالیسیوں میں تبدیلیوں کا دنیا پر مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے۔ماضی میں امریکا نے دنیا کو ہمیشہ اپنی مرضی پر چلانے، اپنے مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کی،اسی پالیسی کو ہی سامراجیت کہا جاتا ہے اور سامراجیت سے دنیا کے عوام سخت نفرت کرتے ہیں۔

9/11 کے بعد امریکا کے سابق صدر جارج بش نے پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) مشرف کو یہ دھمکی دی کہ اگر وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم میں فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے تو پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیا جائے گا۔ امریکا کے ایک سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجرنے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو یہ دھمکی دی تھی کہ ’’اگر انھوں نے ایٹمی پروگرام ترک نہیں کیا تو انھیں نشان عبرت بنادیا جائے گا‘‘ ہنری کسنجر سے جارج بش تک پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی بدترین سامراجی پالیسی رہی ہے اس پس منظر میں جب موجودہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیان پر نظر ڈالی جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید اب امریکا اپنی سامراجی خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کرکے ایک مثبت اور متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دینا چاہتا ہے لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘۔

پاکستان کی حکومت نے ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے جو برسوں سے امریکی دباؤ کی وجہ سے التوا کا شکار تھا۔ پاکستان کے اس فیصلے پر امریکا کے ردعمل میں یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے اس گستاخانہ فیصلے کے خلاف امریکا ان پاکستانی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں لگائے گا جو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد میں حصہ لیں گی۔ ایران اس منصوبے کے ایرانی حصے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بہت پہلے بچھا چکا ہے اور پاکستان سے بار بار مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن جلد سے جلد ڈال دے تاکہ ایران سے پاکستان کو گیس کی سپلائی شروع کی جاسکے۔

پاک ایران گیس لائن پر امریکا کے سخت بے لچک رویے کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے، پچھلے دسمبر میں اس منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ایران جارہے تھے لیکن امریکا کے سخت دباؤ کی وجہ زرداری کو اپنا دورۂ ایران منسوخ کرنا پڑا تھا۔اب پاکستان کی حکومت نے اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی ہے اسی منظوری کے خلاف اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کی خبر برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے دی ہے۔اس ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ایران بہت پہلے اپنے علاقے میں پاکستان تک ایک سوکلو میٹر پائپ لائن بچھاچکا ہے۔ اگر پاکستان اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کردے تو ایران سے پاکستان کو گیس کی سپلائی کا کام شروع ہوسکتا ہے۔

اس مسئلے پر امریکی حکومت کا رویہ اس قدر سخت رہا ہے کہ امریکا اس منصوبے پر عملدرآمد روکنے کے لیے پاکستان کی اقتصادی امداد روکنے اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیان سے یہ امید پیدا ہورہی تھی کہ شاید امریکا دنیا کو اپنی مرضی اپنے مفادات کے تحت چلانے کی سامراجی پالیسیوں کو ترک کردے گا لیکن فنانشل ٹائمز کی گیس لائن کے حوالے سے دی جانے والی خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اپنی سامراجی پالیسیوں کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ابھی پچھلے دنوں امریکا کے ایک سینیٹر نے کہا تھا کہ اگر افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیاں امریکی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہ ہوئیں تو پاکستان کو دی جانے والی امداد روک دی جانی چاہیے۔

پاکستان ان دنوں جن بدترین بحرانوں کا شکار ہے ان میں بجلی گیس کی قلت ایک بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ گیس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کی بے شمار صنعتیں بند ہوچکی ہیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہوکر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ سی این جی کی بندش اور ناغوں کی وجہ سے گاڑیوں میں سی این جی کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا ہے اور مہنگائی کے مارے ہوئے عوام یا تو مہنگا پٹرول خریدنے پر مجبور ہیں یا گاڑیوں کا استعمال ترک کر رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے وابستہ لاکھوں لوگ سی این جی کی قلت کی وجہ ٹرانسپورٹ سے نکل کر دوسرے شعبوں میں روزگار تلاش کر رہے ہیں۔ اس انرجی کرائسس نے پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گھریلوگیس صارفین گیس کی سپلائی بند ہونے سے لکڑیاں جلارہے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں خواتین سڑکوں پر آکر گیس کی عدم دستیابی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں حکومت کی چولیں ہل رہی ہیں ایک افراتفری کا عالم ہے۔

ہم نے امریکا کے نئے وزیر خارجہ جان کیری کے نئے بیان کے حوالے سے امریکا کی سامراجی پالیسیوں کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفادات کے حصار سے نکل کر بین الاقوامی مفادات کی طرف آئے گی لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ امریکی حکومت ابھی تک اپنے سامراجی اور قومی مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھنے والی پالیسیوں سے باہر نہیں آپارہی ہے۔ امریکا کی طرف سے پاک ایران گیس لائن کی اس شدت سے مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ امریکا ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے اقتصادی پابندیوں کے علاوہ دباؤ کے جو مختلف ہتھیار استعمال کر رہا ہے اس میں سے ایک پاک ایران گیس لائن کے معاہدے کو ناکام بنانا ہے۔ پاکستان کو گیس سپلائی سے ایران کو جو آمدنی ہوسکتی ہے امریکا اسے روک کر ایران کو شدید سے شدید اقتصادی زبوں حالی میں دھکیلنا چاہتا ہے تاکہ ایران ان پابندیوں سے گھبراکر ایٹمی شعبے میں جاری اپنے کام سے دستبردار ہوجائے۔

امریکا ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے اس لیے روکنا چاہتا ہے کہ ایٹمی ایران اسرائیل کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔ اگر اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں بالادستی ختم ہوجاتی ہے تو امریکا اور مغربی ملکوں کی خلیج کے تیل پر قائم اجارہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ خلیج کے تیل سے نہ صرف امریکا سمیت کئی مغربی ملکوں کی تیل کی ضروریات پوری ہورہی ہیں بلکہ مغربی کمپنیاں جو تیل کی تجارت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہیں اربوں ڈالر کی لوٹ مار کی کمائی سے بھی محروم ہوجائیں گی۔ یہی وہ مفاد پرستی ہے جو پاک ایران گیس پائپ لائن پروگرام میں برسوں سے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ایران عشروں سے امریکا کی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کر رہا ہے، ایران کو اپنی مرضی پر چلانے کی کوششوں میں امریکا کس حد تک آگے جاسکتا ہے اس کا اندازہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔

شام اورایران ایک دوسرے کے دوست ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایران شام دوستی کو امریکا اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے اور بشار الاسد کو ایران کے ساتھ دوستی کی سزا دینے کے لیے شام میں ایسی دہشت گرد طاقتوں کی دامے درمے سخنے مدد کر رہا ہے جن کو وہ اپنے اور اپنی تہذیب کا دشمن سمجھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں اور بلیک میلنگ سے کیا امریکا ایران کو اپنی مرضی پر چلانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟

امریکا پاکستان کو ایران سے گیس حاصل کرنے سے ہر قیمت پر روکنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر رہا ہے کہ وہ ایران کے بجائے وسطی ایشیا کے ملکوں سے گیس خریدے، پاکستان کا موقف ہے کہ اسے ایران گیس وسطی ایشیا کے ملکوں کے مقابلے میں سستی پڑتی ہے اس لیے وہ امریکا کے تجویز کردہ ملکوں سے گیس خریدنا نہیں چاہتا اور ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے پیش نظر جس ملک سے چاہے گیس خریدے، پاکستان کی اس آزادی کو اپنے مفادات کے تابع کرنے کی اس کوشش ہی کو امریکا کی سامراجی ذہنیت کہا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا کے نئے وزیر خارجہ جان کیری عالمی حالات کے تناظر میں سوچ کی تبدیلی کی جس ضرورت کو تسلیم کر رہے ہیں کیا وہ پاک ایران گیس لائن معائدے کو رکوانے کی امریکی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہیں؟ بلاشبہ آج امریکی سوچ کو دنیا کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہونا چاہیے لیکن سوچ میں تبدیلی محض بیانات سے نہیں بلکہ عمل سے آتی ہے اور اگر امریکا کی نئی حکومت واقعی عالمی حالات، عالمی تقاضوں کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کی روایتی سوچ یا پالیسی سے باہر آنا چاہتی ہے اور اسے آنا چاہیے تو اسے آزاد اور خود مختار ملکوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے سے باز آنا ہوگا ورنہ امریکی صدر کی یہ خواہش کہ ہمیں اب جنگوں سے نکل کر ترقی و تعمیر کی طرف آنا ہوگا ایک دھوکا سمجھی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔