کاری ضرب

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 11 فروری 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ ایک صاحب نے قسم کھالی تھی کہ اپنے اونٹ کو انتہائی کم قیمت میں فروخت کردینگے، خیر جذبات میں وہ قسم تو کھا بیٹھے مگر جب حواس میں آئے تو بڑے پچھتائے کہ اب اونٹ انھیں سستے داموں فروخت کرنا پڑے گا، اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو پھر قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا، اس مشکل میں ایک صاحب دانہ نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اونٹ اسی سستی قیمت میں فروخت کے لیے بازار لے جائیں، مگر اس کے ساتھ بلی بھی فروخت کریں اور خریدار کو یہ شرط عائد کردیں کہ اونٹ کے ساتھ بلی بھی خریدنا ہوگی، البتہ بلی کی قیمت اونٹ کی مارکیٹ کی قیمت کے اعتبار سے رکھیں۔ اس طرح جو شخص بھی سستا اونٹ دیکھ کر خریدنے کی کوشش کرتا اسے یہ شرط بتائی جاتی کہ وہ بلی بھی خریدے اور جب بلی کی قیمت بتائی جاتی تو وہ اونٹ مہنگا لگتا، یوں کم قیمت کے اونٹ کو کوئی نہ خریدتا۔

ایسی ہی دلچسپ صورت حال پارلیمنٹ میں بیٹھے ہمارے نمائندوں کی ہے۔ گزشتہ روز میڈیا نے ایک بار پھر عوام کو ان ارکان پارلیمنٹ کی ’’خستہ حالی‘‘ سے آگاہ کیا، اس خستہ حالی کی تفصیلات کچھ یوں ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 68 ہزار روپے ہے (لیکن یہ تنخواہ اوپر مثال دی گئی اونٹ کی مانند ہے جب کہ مثال میں بیان کی گئی بلی کی تفصیلات کچھ یوں ہے) تنخواہ کے علاوہ 75 ہزار روپے کے مختلف الاؤنسز ملتے ہیں۔ ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنے حلقے سے اسلام آباد تک سالانہ 20 فضائی ایئر ریٹرن ٹکٹ ملتے ہیں، اپنے یا خاندان کے استعمال کے لیے سال میں 3 لاکھ روپے کے سفری واؤچرز ملتے ہیں، قومی اسمبلی یا سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے الاؤنسز کے ساتھ بھی ریٹرن ٹکٹ ملتا ہے اور اگر قائمہ کمیٹیوں کا اجلاس تین دن سے زائد جاری رہے تو 8800 یومیہ اور اضافی فضائی ٹکٹ بھی ملتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اور ان کے اہل خانہ کو میڈیکل کی مفت اور لامحدود سہولیات الگ میسر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بعض ارکان پارلیمنٹ کا میڈیکل بھی 10 لاکھ روپے ماہانہ سے بھی تجاوز کرجاتا ہے۔ یہ تو عام اراکین کی سہولیات و فوائد ہیں جب کہ وفاقی وزیر، وزیر مملکت، پارلیمانی لیڈر اور اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی صورت میں ملنے والی اضافی سہولیات الگ ہیں۔

ہمارے ہاں کمیونزم کی بات کرنیوالے اور اسلام کا نعرہ لگانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن مذکورہ بالا حقیقت تو دونوں نظریات کے حامل گروہوں کے قطعی خلاف نظر آتی ہے۔ اسلامی سنہرے دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو بھی کسی علاقے کا گورنر یا سربراہ بناکر بھیجا جاتا تھا اس پر یہ پابندی عائد کردی جاتی تھی کہ وہ کھدر کا کپڑا پہنے گا، زمین پر سوئے گا اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا اور اس وقت حقیقت حال یہ ہوتی تھی کہ امیر وقت خود بھی اپنے اخراجات اور سرکاری تنخواہ کم کرلیتا تھا، خدا کے حضور جواب دہی کے خوف سے کھانے کی مقدار کم کردی جاتی تھی اور روز آخرت جواب دہی کے خوف سے راتوں کو بھی بھیس بدل کر عوام کی حالت زار جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں سورہا؟ خلیفہ وقت سے کوئی ملاقات کے لیے آئے تو خلیفہ یہ جان کر کہ آنیوالا شخص سرکاری کام سے نہیں بلکہ ذاتی کام سے آیا ہے، رات کے وقت جلتا ہوا چراغ بجھاکر گفتگو کرتا اور وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ چراغ میں سرکاری پیسوں کا تیل ہے جس کو ذاتی کام کی گفتگو کے لیے استعمال کرنا اصولوں کے خلاف ہے۔

ایک رکن پارلیمنٹ تو مہینے میں 10 لاکھ روپے تک کا میڈیکل بل حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے مگر اس میں رکن پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں پہنچانے والے عوام صحت کی کیا سہولیات رکھتے ہیں؟ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی عوام کو صحت کی سہولیات قابل افسوس ہیں تو ملک کے باقی علاقوں خصوصاً دیہی علاقوں میں کیا ہوں گی؟

کراچی شہر کے بڑے اسپتال عباسی شہید میں راقم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آنیوالی خواتین کو ڈیلیوری کے لیے سہولیات، اسپتال کے نام پر دھبہ ہیں۔ ایک دیوار پر لکھا تھا کہ ’’کھٹمل تو ماردو‘‘۔ میں نے وہاں موجود ایک صاحب سے پوچھا تو اس نے کہا کہ جناب یہاں نہ صرف کھٹمل ہیں بلکہ جسامت میں اس قدر بڑے اور خطرناک ہیں کہ دن کے وقت بھی باہر بنچوں پر بیٹھنا محال ہے۔ ہم اپنے جس عزیز سے ملنے گئے تھے ان سے دریافت کیا تو وہ غصے سے شکایت کرنے لگے کہ جناب یہاں نومولود بچے ہوتے ہیں، آپریشن والی خواتین ہوتی ہیں، مگر کھٹمل تو چھوڑیئے یہاں جگہ جگہ بلیاں گھوم رہی ہیں، جو مریض کے پیٹ پر کودتی پھرتی ہیں، صفائی و گندگی کی بات تو رہنے دیجیے آپ دوسری منزل پر موجود اس شعبے کو دور تک دیکھیے کہیں کوئی وہیل چیئر ہی موجود نہیں، اب جس خاتون کا آپریشن سے بچہ ہوا ہو اس کے تیمار دار بچے اور خاتون کو لے کر نیچے کیسے اتریں؟ ان عزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی ایسا ذمے دار بھی یہاں نہیں ہے کہ جس سے کسی مسئلے پر یا شکایت پر بات کی جاسکے، کوئی کاؤنٹر نہیں، کس سے معلومات کریں، کس سے فریاد کریں؟

سنا ہے کہ عباسی شہید اسپتال کی حالت سابق سٹی ناظم کے دور میں بہتر تھی، مگر ان کے جانے کے بعد اب مزید ابتر ہوگئی ہے۔بات سٹی ناظم کی نہیں بلکہ حقائق تو یہ ہیں کہ جس جمہوریت میں طبقہ داریت کو فروغ دیا جائے اور منتخب نمائندوں کی دنیا ہی الگ ہوجائے، جہاں انھیں VIP سے بھی زیادہ سفری، صحت اور دیگر سہولیات حاصل ہوں اور جن کے میڈیکل کے اخراجات بھی ماہانہ 10 لاکھ تک حاصل ہوں وہاں اس اعلیٰ، اشرافیہ طبقے کو بھلا کیا پتہ کہ سرکاری اسپتال کہاں ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں، وہاں کھٹمل اور بلیاں ہوتی ہیں یا اور بھی حشرات ہوتے ہیں؟

قابل غور بات یہ ہے کہ جب کسی گروہ کا سرکاری اسپتال جانا ہو اور کسی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے پڑھانے کا اتفاق نہ ہو تو بھلا وہ حکمران گروہ کیسے اندازہ کرسکتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہوتی ہے اور کسی سرکاری تعلیمی ادارے کا معیار کیا ہوتا ہے، اور جب اس گروہ کو کسی مسئلے کا علم ہی نہ ہو تو وہ بھلا اسے کیسے حل کریں گے؟ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس گروہ کے بعض افراد کو جیل بھی تو جانا پڑتا ہے پھر ہماری جیلوں کی حالت کیوں نہیں سدھرتی؟

بات یہ ہے کہ جب یہ لوگ جیلوں میں پہنچتے ہیں تو اول تو انھیں سہولیات VIP ملتی ہیں، مگر وہ بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں، چنانچہ یہ وہاں وقت گزارنے کے لیے اچھی اچھی ’’کتابیں‘‘ تو ضرور لکھتے ہیں اور جیل کے اندر لوگوں سے وہاں اصلاحات کا وعدہ بھی کرتے ہیں مگر جب باہر آکر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں تو پھر وہ پچھلا سب کچھ بھول جاتے ہیں کیونکہ جمہوریت کے اس اشرافیہ ماحول اور طبقے کی یہی خصوصیت ہے کہ انھیں اس قدر آسائشات مل جاتی ہیں کہ وہ ایک بار پھر اس میں مگن ہوجاتے ہیں۔ جب تک تمام طبقوں خصوصاً حکمران اور عوامی طبقے کو کم ازکم صحت اور تعلیم کے یکساں مواقعے میسر نہ ہوں، عوامی حالت نہیں سدھر سکتی، اسی طرح ایک سابق وزیر خزانہ کی عرصہ دراز قبل دی گئی اس تجویز پر بھی عمل درآمد کی ضرورت ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ تمام اراکین پارلیمنٹ کی مراعات کا سلسلہ ختم کرکے ماہانہ تنخواہ کی ایک مخصوص رقم کا اعلان کردیا جائے جس سے قومی خزانے پر بوجھ کم پڑیگا۔ اس تجویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کیونکہ اس سے حکمرانوں کی شاہ خرچیوں پر کاری ضرب پڑتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔