پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مالیاتی لوٹ مار (پانچواں حصہ)

خالد گورایا  اتوار 6 اگست 2017
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

ٹیبل D۔(5)۔سال 2012-13 میں حکومت نے ریونیو سے ہٹ کر دیگر ذرائع سے 28 کھرب 87 ارب 7 کروڑ63 لاکھ روپے حاصل کیے تھے۔ اس میں سے صحیح بجٹ خسارہ نکال دیا جائے تو حکومت کے پاس 20 کھرب 28 ارب 32 کروڑ43 لاکھ روپے بچت میں موجود تھے۔ ان کی ڈالر میں مالیت 89.2359 روپے فی ڈالر کے حساب سے 22 ارب 72 کروڑ 99 لاکھ 13 ہزار ڈالر حکومت نے بد دیانتی کرکے ہڑپ کرلیے۔

حکومت نے 5 سالہ حکمرانی کے دوران غریب بھوکے ننگے غربت کے مارے عوام کا سرپلس سرمایہ 93 ارب 75 کروڑ11 لاکھ 63 ہزار ڈالر جمہوری حکمرانی کے نام پر ڈکار لیا۔ وہ غریب عوام جو ووٹوں، ٹھپوں سے ان ظالم وڈیروں کے بیلٹ باکس بھرتے ہیں یہ جاگیردار سرمایہ دار ان ٹھپوں کو عوامی مینڈیٹ کا نام دے کر عوام ہی کا سرمایہ کھا کر امیر اور عوام جو ان کو حاکم بناتے ہیں۔ آئے روز غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

عوام ٹھپوں سے چوہدریوں، وڈیروں کی تقدیر میں امیر ہونا لکھتے ہیں اور یہ عوام فروش بے ضمیر لوگ عوام کی تقدیر اور قسمت میں بھوک، بیماریاں، آلودہ پانی، بے روزگاری، مہنگائی، لاچارگی اور بے بسی، تعلیم سے محرومیاں لکھ کر غریب عوام کے منہ پر مارتے ہیں۔ یہ جاگیردار، سرمایہ دار عوام سے کھربوں روپے لے کر عوام کے معاشی تحفظ کو یقینی بنانے کے بجائے عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے ادارے الٹا عوام کے لیے عذاب بنا دیے گئے اشرافیہ ملک کے لیے سیکیورٹی رسک بن چکی ہے مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں حکومت بنائی ملکی تمام ادارے تباہ کردیے گئے۔

اس کے دور میں صنعتی کلچرکی تباہی پھیلتی گئی ہر طرف انتشار، غربت اور پاناما میں ملوث ہونے کے بعد نواز شریف نے بڑی تیزی سے ملکی سطح پر بڑے بڑے منصوبوں کا افتتاح کیا۔ تاکہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ مسلم لیگ (ن) عوام کی خیر خواہ پارٹی ہے، حقیقت یہ ہے کہ عوام اس بھول کا شکار کردیے جاتے ہیں کہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا تک آسانی سے رسائی ہوگی۔

عوام یعنی عام آدمی کے تصور میں لمبی لمبی کاریں بنگلے نہیں ہوتے ہیں اور پھر ہر پارٹی سے وابستہ ورکرز جو پارٹی کے لیڈر سے روپے لیتے ہیں سادہ عوام کو چھوٹے بڑے حلقوں میں سے گاڑیوں میں ٹھونس کر ہنکار کر پولنگ اسٹیشن تک لاکر ان سے اپنے پارٹی کے لیڈر چھوٹا یا بڑا کے لیے ووٹ کاسٹ کرواتے ہیں۔ معصوم عوام کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ ان کے ٹھپوں سے عوام کا مقدر مزید بگڑ رہا ہے اور جاگیردار اور سرمایہ دار کے لیے ’’الیکشن‘‘ الٰہ دین کا چراغ اور کھل جا سم سم بن جاتے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے اپنے پہلے دور میں 98 ملکی اہم اداروں کی نج کاری بجٹ سپورٹ کے نام پر کرکے عوامی و ملکی مفاد کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ 1993 میں کرپشن کے الزام میں نواز حکومت برطرف کی گئی۔ دو سال کی مدت کے دوران 98 ملکی و عوامی اہم ادارے 61 ارب روپے میں اپنے لوگوں کو کوڑیوں کے مول فروخت کرکے بے تحاشا کمیشن کمایا گیا۔ ان اداروں کی اصل قیمت کھربوں روپے تھی۔ بے نظیر کی حکومت نے بھی نجکاری کرکے ادارے تباہ کیے۔

اشرافیہ حکومت حاصل کرکے ذاتی فائدے کے لیے بجٹ سازی میں ہیراپھیری کرکے کھربوں روپے عوامی سرپلس سرمایہ ہڑپ کرجاتی ہے اور بے بس، بے اختیار عوام کو عوامی خوشحالی کی ’’خیالی ڈگڈگی‘‘ بجاکر عوام کو غربت کی گہری نیند اور وادی محرومیت میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا سب سے بڑا مقصد حکومت حاصل کرنا ہے، کیونکہ حکومتی اختیارات سے ہی ملکی وسائل کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے 2013 سے حکومت بنائی۔ (6)۔ سال 2013 کا بجٹ کتاب پاکستان اکنامک سروے 2016-17 کے ٹیبل 4.2 کے مطابق 2013 میں ٹوٹل ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ60 لاکھ روپے تھا۔ ٹوٹل اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ روپے دکھائے گئے۔ بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ40 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ اسی ٹیبل میں اسی مطلوبہ خسارے کو ملکی ذرائع سے پورا کرکے بجٹ برابر کردیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیبل 4.5 میں سال 2013 میں ملکی+غیرملکی+اور صوبہ جاتی سود ادائیگیوں کی مد میں 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ80 لاکھ روپے دکھائے گئے ہیں اور اس ادائیگی کو ٹیبل 4.4 میں اخراجات کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اصل حقیقت تو یہ تھی کہ ٹیبل 4.3 میں ٹوٹل ریونیو میں غیر ملکی قرض وصولی۔ ملکی قرض وصولی اور زرمبادلہ کی وصولی کو بھی آمدنی میں شامل کیا جانا ضروری تھا جوکہ حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ ٹیبل 45 اخراجات میں شامل کرکے عوام پر ادائیگی ڈالی گئی اور اخراجات بڑھا کر بجٹ خسارہ بڑھایا گیا۔ حالانکہ حکومت نے غیر ملکی نقد ڈالر وصول کیے تھے اس کی سود ادائیگی بھی بروقت کردی گئی تھی ملکی قرض پر ٹیبل 6.5 کتاب ہینڈ بک اسٹیٹ بینک پاکستان کے مطابق ملکی قرض پر کوئی سود و اصل زر ادائیگی کا ذکر نہیں ہے۔

(Source, Ministry of Finance Budget Wing) اور حکومت نے زرمبادلہ وصول کیا اس کا بجٹ میں ذکر نہیں کیا؟ اس طرح حکومت نے سود کی ادائیگی کے حوالے سے غلط بیانی کرکے جان بوجھ کر بجٹ خسارہ بڑھایا۔ اب اگر اس بوگس ادائیگی کو ٹوٹل اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ روپے سے 10 کھرب 5 ارب 79 کروڑ80 لاکھ روپے نکال دیے جاتے ہیں تو اصل اخراجات 38 کھرب 10 ارب 50 کروڑ20 لاکھ روپے ہوتے ہیں اس میں سے اصل ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ60لاکھ روپے نکال دینے کے بعد اصل زر بجٹ خسارہ 8 کھرب 28 ارب 6 کروڑ60 لاکھ روپے کا ہوتا ہے۔

ٹیبلD۔(6)۔سال 2013 غیرملکی قرض نقد وصولی+ملکی قرض وصولی+زرمبادلہ وصولی تینوں مدوں میں ٹوٹل 33 کھرب ایک ارب 33 کروڑ55 لاکھ 64 ہزار روپے تھا۔ اس میں سے اصل بجٹ خسارہ نکال دیا جائے تو حکومت نے بجٹ ہیرا پھیری ملکی عوامی مالیت میں سرپلس عوامی سرمایہ 24 کھرب 73 ارب 26 کروڑ95 لاکھ 64 ہزار روپے حاصل کرلیا تھا۔ جس کی ڈالر میں مالیت 96.7272 روپے فی ڈالر کے حساب سے 25 ارب 56 کروڑ95 لاکھ 35 ہزار ڈالر تھی۔(7) ۔سال 2014 ٹیبل 4.2 کے مطابق ریونیو 36 کھرب 37 ارب 29 کروڑ70 لاکھ روپے تھا۔ ٹوٹل اخراجات 50 کھرب 26 ارب ایک کروڑ60 لاکھ روپے دکھائے گئے۔ خسارے میں اضافے کے لیے ٹیبل 4.5 کے مطابق 2014 میں سودوں کی ادائیگیاں 11 کھرب 61 ارب 87 کروڑ60 لاکھ روپے دکھائے گئے۔

ٹیبل 4.4 میں ان بوگس سود ادائیگیوں کو سال 2014 میں Consolidated Federal and Provincial Government Expenditures میں شامل کرکے ٹوٹل اخراجات 5026016.0 ملین روپے بنائے گئے۔ اس بوگس ادائیگی کو نکال دینے کے بعد اصل ٹوٹل اخراجات 38 کھرب 64 ارب 14 کروڑ روپے تھے اور ٹیبل 4.2 کے مطابق بوگس ٹوٹل اخراجاتی بجٹ50 کھرب 26 ارب ایک کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔ اس میں سے ٹوٹل ریونیو 3637297.0 ملین روپے نکال دینے سے بجٹ خسارہ 13 کھرب 88 ارب 71 کروڑ90 لاکھ روپے دکھایا گیا اور اس خسارے کے مساوی بیرونی +اندرونی وصولیوں کو لے کر بجٹ خسارہ پورا کرلیا گیا۔ اصل حقیقت یہ تھی اصل ٹوٹل اخراجات 3864140.0 ملین روپے میں سے ٹوٹل ریونیو 3637297.0 ملین روپے نکال دینے سے ٹوٹل اصل بجٹ خسارہ 2 کھرب 26 ارب 84 کروڑ 30 لاکھ روپے تھا۔     (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔