میرا فون مر چکا ہے!!!

شیریں حیدر  اتوار 6 اگست 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہم تو سمجھتے تھے کہ صرف ہمارے بچوں اورنئی نسل کے نمائندوں کی زندگیوں میں ہی موبائل فون سب چیزوں سے بڑھ کر اہم ہیں، وہ ہمہ وقت انھیں ہاتھ میں پکڑے رکھتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ پوری دنیا ان کے ہاتھ میں ہے۔ صرف پاکستان میں ہی ایسا نہیں ہے، بیرون ملک میں بھی یہی جال نوجوان نسل کا نظر آیا کہ انھیں نہ کھانے پینے کا ہوش ہے نہ سڑک پار کرتے وقت اپنی جان کی پروا۔ اسے ہم فقط نئی نسل کا المیہ سمجھتے ہیں مگر چند دن قبل ہونے والے ایک واقعے سے ادراک ہوا کہ ہم بھی مبتلاؤں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ…

اپنا سامان پیک کر رہی تھی، ساتھ ساتھ اپنے فون کے نوٹس پر اس پیک ہونے والے سامان کی فہرستیں بنا رہی تھی۔ کچھ ایسا ہوا کہ کسی کام کے یاد آجانے سے اٹھی، دوبارہ سامان کب پیک کرنا تھا، اس کا تعین نہ کیا اور ہر شے اپنے اپنے مقام پر اسی طرح چھوڑدی۔ تھوڑی دیر میں کلائی میں تھرتھراہٹ محسوس ہوئی، گھڑی پر دیکھا۔ کلائی پر بندھی ہوئی یہ گھڑی فقط ایک گھڑی نہیں ہے، اس میں بھی ایک دنیا آباد ہے۔ چھوٹی بیٹی نے جب یہ گھڑی تحفتاً دی تھی تو اس نے کچھ وضاحت کی تھی جس پر زیادہ غور و فکر یہ سوچ کر نہ کیا تھا کہ گھڑی تو گھڑی ہی ہوتی ہے۔ گھڑی میں تھرتھراہٹ ہوئی تو اسے دیکھا کہ اس کا کیا مسئلہ ہے۔

بڑی بیٹی کی کال آ رہی تھی، اوپر اس کمرے میں جہاں میں فون پر کچھ دیر پہلے کام کر رہی تھی، فون وہاں نہیں تھا، صاحب سے دریافت کیا کہ جس گھر میں فقط دو نفوس ہوں وہاں لازمی کسی چیز کی گم شدگی پر ایک شخص دوسرے سے ہی پوچھ سکتا ہے۔ صاحب نے لا علمی کا اظہار کیا ۔

میری بیٹی نے مجھ سے پاپا کے فون پر بات کی، اس نے کہا کہ رات کو فون کی گھنٹی بند کرتی ہیں تو صبح اٹھ کر آن کیوں نہیں کر لیتیں، ویسے اسے بند کرنے کی ضرورت کیا ہے، panic نہ کریں اور ریلیکس ہو کر سوچیں، rewind کر کے سوچیں، شکر ہے کہ آپ گھر سے باہر نہیں گئیں اور یہ یقین ہے کہ فون گھر میں ہی ہے!۔ اس نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کیا اور میں نے سوچوں کو rewind پر لگا دیا۔

گھڑی نے پھر بتایا کہ پاکستان سے چھوٹی بیٹی کی کال تھی، اسے بڑی بہن نے بتایا تھا تا کہ کہیں وہ رابطہ کرنیکی کوشش کرے اور پریشان نہ ہو۔ یوں بھی بریکنگ نیوز تو بریکنگ نیوز ہے نا۔

” پاس ورڈ یا فنگر پرنٹ تو لگایا ہوا ہے نا آپ نے؟” بیٹی نے سلام دعا کے بعد سوال کیا۔

” فون گھر پر ہی ہے بیٹا… میرے پاس ہی ہوتا ہے، اسے کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا، اس لیے کبھی پاس ورڈ لگانے کی ضرورت نہیں سمجھی!”

” مجھے لگتا ہے کہ آپ نے اسے سامان میں پیک کر دیا ہے غلطی سے!”اس نے اپنا قیافہ پیش کیا۔

” مگر میں ساتھ ساتھ سامان کی فہرست بنا رہی تھی اور اس بات کا امکان کم ہے مگر پھر بھی دیکھ لیتی ہوں!” فون بند کر کے، پیک کیے ہوئے سامان کو دوبارہ کھولا، ایک ایک چیز کو دوبارہ پیک کیا مگر فون وہاں ہوتا تو نا… خبر پھیلنا شروع ہو گئی تھی، جو میرا فون پاس ہوتا تو مجھے بھی فوراً علم ہو جاتا، یہی ذریعہ ہے خبر کے تیزی سے پھیلنے کا۔” اس فون پر انٹر نیٹ کے ذریعے فون کو ڈھونڈنے کی آپشن ہے نا؟” ماموں جان نے سوال کیا، وہ کسی کام سے آنا چاہ رہے تھے اور فون پر مجھ سے رابطہ نہ ہونے کے باعث پوچھنے آئے تھے کہ سب خیرتو ہے۔

انھوں نے بتایا کہ میرے کمپیوٹر کے ذریعے میری آئی ڈی پر لاگ ان کر کے چیک کر سکتے ہیں کہ فون کہاں ہے، مگر سوئے اتفاق اس دن میرے کمپیوٹر کے ساتھ اس سے بھی بڑا حادثہ ہوا تھا جس کے باعث وہ ناقابل استعمال تھا۔ صاحب کے فون سے انھوں نے میری آئی ڈی پر لاگ ان کیا اور وثوق سے کہا کہ فون گھر پر ہے ۔” یہ تو مجھے بھی علم تھا، مگر گھر پر کہاں ہے، یہ چیک کریں!” وہ میری سادگی اور بے وقوفی پر ہنسے۔” ٹیکنالوجی ابھی اتنی ایڈوانس نہیں ہوئی ” انھوں نے ٹیکنالوجی کی بے بسی کا اظہار کیا۔

” کیا خبر ہے؟ ” بیٹی نے گھر میں داخل ہوتے ہی سوال کیا۔ ” آپ نے کچھ کھایا دن کو بیٹا؟ ” میں نے اس کی توجہ ہٹانا چاہی، ” آپ کچھ کھا پی لو پھر دیکھتے ہیں!”

” فلش میں نہ کہیں گر گیا ہو؟” اس نے اندازہ لگایا، ” غسل خانے گئیں آپ اس دوران؟”

” گئی ہوں گی… یاد نہیں اور یہ بھی یاد نہیں کہ اس وقت فون میرے ہاتھ میں تھا کہ نہیں!” عموماً تو فون پاس ہی ہوتا ہے کہ اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں ہوتا سوشل میڈیا چیک کرنے کا۔ ” کیا فون فلش ہوجاتا ہے؟ ” میں نے گھبرا کر سوال کیا۔” چیک کر لیتے ہیں!” اس نے جواب دیا۔

” کیسے چیک کریں گے؟ ” میرے ذہن میں پہلا خیال آیا تھا کہ وہ کہے گی پاپا کا فون فلش کر کے، مگر اس نے انٹرنیٹ پر سوال ڈالا اور گوگل نے بتایا کہ فون فلش نہیں ہو سکتا۔ دل کو کچھ تسلی تو ہوئی مگر یہ خیال بھی آیا کہ ہو سکتا ہے کہ میرا فون مختلف ہو یا بیٹی کے گھر کا فلش۔ ” کیا کسی طرح آپ اپنے گھر کا گٹرسسٹم چیک کروا سکتی ہو بیٹا؟ ” دل میں ایک نیا وہم پڑ گیا تھا۔ ” اگر گٹرمیں چلا گیا ہو تو آپ کیا کر لیں گی؟” ” کم از کم یہ تسلی ہو جائے گی کہ میرا فون مر چکا ہے اور میں اسے تلاشنے میں پاگل تو نہیں ہوتی رہوں گی!” بیٹی نے چائے بنا کر دی اور کہا کہ میں ریلیکس ہو کر سوچوں۔ ریلیکس ہونے کے لیے فیس بک دیکھ لیتی ہوں، میں نے سوچا، مگر کہاں دیکھوں فیس بک۔ اپنا آپ نا مکمل لگ رہا تھا فون کے بغیر مگر فقط ایک تسلی تھی کہ فون گھر پر ہے۔ پورا ایک دن اور پوری ایک رات گزر چکی تھی، رات بھر سکون سے سو بھی نہ سکی تھی، خواب میں فون ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس قدر تھک چکی تھی کہ دماغ بھی ماؤف ہو گیا تھا۔اگلے دن لگ بھگ وہی وقت ہو چکا تھا۔ سکون میں آکر، وظیفہ پڑھا اور آخری کوشش کے طور پر صاحب کی ”درخواست” پر اسی بیڈ سے تلاش شروع کی جسے صرف میں ہی نہیں بلکہ باقی لوگ بھی کافی دفعہ چیک کر چکے تھے۔ بستر کے بعد گدا اٹھایا، کچھ نہ ہوا، بیڈ کے نیچے فالتو سامان رکھنے کے لیے جو بڑے بڑے دراز تھے ان میں بستر اور تولیے تھے، وہ میں نے پچھلے روز ہی لانڈری والے کمرے سے تہہ کر کے لا کر رکھے تھے، یونہی شک دور کرنے کو انھیں بھی نکال کر دیکھنے کا سوچا۔۔۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ اور ”ٹھک” کی آواز سے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی، خوف سے نہیں، خوشی سے۔۔۔ وہ سامنے میرا فون، دھڑکنوں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا، میں نے اسے خوشی سے تھاما، کپکپاہٹ، فون کانپ رہا تھا یا میرے ہاتھ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، ” میں دنیا میں واپس آگئی ” میں نے فیملی فورم میں پیغام بھیجا تو مبارک باد کا تانتا بندھ گیا۔ باجی نے وظیفے کا باقی حصہ بتایا تو میں نے حسب ہدایت مکمل کیا۔ فون کا گم ہوجانا اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا اگر وہ فون اتنے اہم رازوں کا امین نہ ہوتا۔ زیادہ فکر تواس بات کی ہو رہی تھی کہ پاکستان میں ساری قوتیں ایک سیاسی لیڈر کے بلیک بھری فون تک رسائی حاصل کرنے کی سر توڑکوششوں میں مصروف ہیں ،ایسے میں میرے فون کا یوں گم ہو جا نا بھی کسی ایسی ہی سازش کی کڑی نہ ہو۔ آخر ہم سب کے فون اپنے پیٹوں میں کئی راز لیے ہوئے ہوتے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔