اقتدار کی جنگ

بابر ایاز  اتوار 6 اگست 2017
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

سپریم کورٹ کے فیصلے کو دونوں طرح سے دیکھا جا سکتا ہے، اسے متوقع فیصلہ بھی کہا جاسکتا ہے اور غیر متوقع بھی۔ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھا کہ تمام تر شورشرابہ کے بعد بھی پاناما منی لانڈرنگ کیس سماعت کے لیے احتساب عدالت ہی کے حوالے کیا جائے گا، اگر سپریم کورٹ شروع ہی میں جب بعض سیاست دانوں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، آرٹیکل184 (3) کے تحت اختیارکو استعمال کرنے کی بجائے اور بنیادی حقوق کے تحت منصفانہ سماعت ،جیسا کہ آئین کے آرٹیکل10A میں درج ہے، کے حق کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ فیصلہ کردیتی تو قوم کو پریشانی، وقت اور پیسے کے زیاں سے بچایا جا سکتا تھا۔

فیصلے کا غیرمتوقع پہلو، اس معمولی سی دانستہ یا نادانستہ غلطی پر آرٹیکل62 (f) کے تحت وزیراعظم کی نااہلی ہے کہ انھوں نے الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت 10,000 درہم کی قابل وصول تنخواہ کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ یہ تنخواہ ان کی طرف سے اس کمپنی کی جانب سے قابل وصول تھی جو ان کے صاحبزادے نے دبئی کے ڈیوٹی فری ایریا میں قائم کی تھی۔ فاضل عدالت نے اس کی تشریح اثاثے چھپانے کے طور پر کی۔

ٹیکس قوانین کے تحت اگرکوئی شخص اپنے لین دین کا حساب کتاب کیش کی بنیاد پر رکھتا ہے تو پھر قابل وصول کو اثاثہ تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ تاہم سپریم کورٹ کو ان قوانین کی نئے طریقے سے تشریح کا پورا اختیار ہے اور فاضل جج صاحبان کی فہم وفراست پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔

میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پرکسی نچلی عدالت میں پاناما لیکس منی لانڈرنگ کیس کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا تاکہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا توانھیں اپیل کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کا شفاف موقع ملتا۔ اسی کو مقدمے کی منصفانہ سماعت کا حق کہا جاتا ہے۔

بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے والد نے دبئی میں اسٹیل مل خریدنے کے لیے جو رقم بھیجی تھی، اس کے لیے بینکنگ کا مناسب چینل استعمال نہیں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ اس پوری زنجیر کی پہلی کڑی فراہم نہیں کرسکے۔یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ 80 کی دہائی میں یہ رقم فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹس (FEBCs) کے ذریعے بھیجی گئی ہو۔ یہ وہ طریقہ تھا جو ڈاکٹر محبوب الحق نے 80 کی دہائی میں موجود غیر ملکی زر مبادلہ کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین کو آسان بنانے کے لیے متعارف کرایا تھا۔

اگر شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ کا کیس ثابت ہو جاتا تو انھیں بجا طور پر سزا دی جا سکتی تھی اور پھر اس کے نتیجے میں انھیں الیکشن کمیشن کی جانب سے درست طریقے سے نااہل قرار دیا جاسکتا تھا۔ تمام مہذب ملکوں میں ایسے منتخب نمائندوں کو جنھیں کسی اخلاقی برائی کی پاداش میں سزا سنائی جائے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے روک دیا جاتا ہے۔

اس قسم کے مقدمات میں صرف فلسفہ قانون ہی کا معاملہ درپیش نہیں ہوتا۔ معاملہ قانونی ہو یا اس کا تعلق قرآن پاک یا روایت کی مذہبی تشریح سے ہو، تشریح انفرادی سوچ پر مبنی چلی آ رہی ہے۔ یادداشت تازہ کرنے کے لیے اسلامی فقہ کے ارتقاء پر سرسری نظر ڈالیے۔ ہمارے پاس پانچ بڑے’’ فقہ‘‘  ہیں جو اسلامی فلسفہ قانون کی بنیاد ہیںاور دنیا بھر کے مسلمان انھیں قبول کرتے ہیں۔امام ابو حنیفہ 80-150) ہجری)،امام مالک بن انس94-179) ہجری)،امام الشافعی150-204) ہجری)،امام احمد بن حنبل164-204) ہجری) اور امام جعفر صادق80-148) ہجری)کی طرف سے قرآن اور لا تعداد روایات (شریعہ) اور احادیث کی تشریح بیان کی گئی، اگرچہ ان میں سے بعض کے درمیان استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔

حکمرانوں نے اس تقسیم کا پورا فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر  صوفی منصورالحلاج کے مقدمے میں جن دو ججوں نے معاملے پر غور کے لیے کہا تھا وہ خود اس رائے کو مسلمہ معیار سے انحراف سمجھتے تھے مگر انھوں نے ان قانونی نتائج سے اختلاف کیا جو الحلاج کی دستاویز کی ملکیت سے سامنے آئے۔ان میں سے ایک نے جو حنفی تھا ، فیصلہ دیا کہ یہ صوفی بزرگ مسلمہ نظریات سے انحراف سے لا تعلقی ظاہر کرکے سزا سے بچ سکتا ہے، مگر دوسرے نے جو مالکی تھا قرار دیا کہ اس کی مخلصانہ معذرت بھی قبول نہیں کی جا سکتی اور سزائے موت کا مستحق ہے۔

خلیفہ المقتدرکے وزیر نے مالکی تشریح کو استعمال کیا،چنانچہ وہ شخص جو ہماری مذہبی داستانوں میں حق گوئی کی علامت تھا،ختم کردیا گیا۔ہمارے آئین کے ساتھ بھی اسی قسم کا مسئلہ ہے جو اس تحریری دستاویز کی جو لگ بھگ45 سال پرانی ہے ، تشریح کرنیوالوں کو بہت زیادہ گنجائش دیتا  ہے۔ جب کہ مذہبی روایت کے معاملے میں اولین تشریح  تقریباً ایک سو سال بعد سامنے آئی۔

اس وقت آئین ،اُس وقت کے مقابلے میں جب اسے بنیادی نوعیت کی ترامیم کے بعد دیکھا جائے گا، ایک تازہ اور فعال دستاویز کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے باوجود عدالتوں کو انتہائی واضح طور پر درج شقوں کی تشریح کے لیے کہا جا رہا ہے، مگر اب تک ہوشیار اور چالاک حکومت اس پھندے میں نہیں پھنسی۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ عہد ِ جدید میں مذہبی قیادت نے کس طرح معاشرے کے ان تمام طبقات کو ناکام بنایا جنھوں نے 1979 میں جمہوری ایران کے انقلاب میں حصہ لیا تھا۔ ایرانی آئین میں ولایت ِ فقیہ کے ادارے کو با اختیار کیا گیا ہے۔ میرے محدود علم کیمطابق مسلم ریاستوں کی تاریخ میں اس قسم کے ادارے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔’’مذہبی نگہبان‘‘ اور اس کی کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ متعدد امکانی امیدواروں کو اس بنیاد پر ایرانی پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دے دے کہ وہ انھیں اتنا پرہیز گار اور مذہبی نہیں سمجھتی کہ عوام انھیں منتخب کریں۔ چنانچہ فیصلہ عوام پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ مذہبی قیادت کے ایک چھوٹے سے حلقے کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

مجھے یہ ادارہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے بارے میں حالیہ فیصلے سے یاد آیا۔اس فیصلے میں بعض شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔جنرل ضیا الحق نے جو خود کو ایک طرح سے ملک کا مذہبی نگہبان سمجھتے تھے،1973 کے آئین کے آرٹیکل62 اور63 میں بعض متنازع شقیں شامل کر دیں۔

فاضل سپریم کورٹ کے فیصلے تک آئین کی یہ شقیں غیر فعال رہیںکسی نے بھی ان شقوں کو فعال کر کے پارلیمان کے کسی رکن، صدر اور وزیر اعظم کی نااہلی کی استدعا نہیں کی تھی، اب جب کہ یہ شقیں فعال کر دی گئی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کواب اس بات پر افسوس ہونا چاہیے کہ جب وہ 18 ویں ترمیم پر کام کر رہی تھیں تو انھوں نے آرٹیکل62 اور63 کو ختم نہیں کیا۔ میں نے اُس وقت بعض ارکان پارلیمان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتیں اس معاملے پر غور کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس کے باوجود یہ دونوں پارٹیاں، مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آئے بغیر اور انھیں اختلافی نوٹ لکھنے کی اجازت دے کر ان دو شقوں کو ختم کر سکتی تھیںکیونکہ کمیٹی میں ان کی اکثریت تھی۔

اب بھی لبرل جماعتوں کو پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے تا کہ آئین سے ان دومتنازع شقوں کو ختم کیا جا سکے۔انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ پی ایم ایل(این) کے وزیراعظم سے جو عمل شروع ہوا ہے وہ نہیں رکے گا اور ان کی قیادت بھی نا اہل ہو جائے گی۔یہ وقت نواز شریف کے چلے جانے پر شادیانے بجانے کا نہیں بلکہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔