یہ کیا جگہ ہے دوستو…؟

رئیس فاطمہ  اتوار 6 اگست 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہر طرف کیچڑ، پانی، گٹر اُبلتے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ہر طرف غلاظت کے ڈھیر، دھواں اگلتی پبلک ٹرانسپورٹ، جس میں انسان جانوروں کے باڑے کی طرح بھرے ہوئے ہیں، نہ بجلی ہے نہ پانی، مکھیوں اورکیڑے مکوڑوں کی فراوانی، فلو، نگلیریا، ڈینگی، چکن گنیا، سب طرح کی بیماریوں کی افراط۔

یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کونسا دیار ہے
حد نگاہ تک یہاں غبار ہی غبار ہے

یہ کوئی کچی آبادی نہیں ہے جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ بد قسمتی سے یہ کراچی ہے جو پاکستان کی شہ رگ ہے،  آخر حکومت سندھ کے مالکوں سے سوال کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ شاید یہ بھی فرینڈلی اپوزیشن کے مینی فیسٹو کا حصہ ہے کہ ’’سندھ میں جو چاہو کرو، ہم کچھ نہ کہیںگے؟‘‘ سب کچھ صاف نظر آ رہا ہے۔ سندھ حکومت کو اجرک ٹوپی کا دن یاد رہتا ہے، بے پناہ پیسہ ضایع کیا جاتا، اشتہارات چھپتے ہیں، ڈھول بجتے ہیں لیکن غلاظت اور گندگی کے پہاڑوں کو دن بدن اونچا کیا جا رہا ہے۔

توجہ صرف نواب شاہ اور لاڑکانہ پر ہے، کراچی کو پیرس بنانے کے دعویداروں نے بھی خوب خوب اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کیا صرف یہ کہنے سے ذمے داری ختم ہو جاتی ہے کہ ’’ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اختیار نہیں دیا جاتا، فنڈز نہیں دیے جاتے‘‘ آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پانی، پینے کا پانی لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔ R.O پلانٹ لگاکر عام نلکوں کا پانی صرف پھٹکری سے صاف کر کے مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے۔

دن بدن بڑھتی ہوئی آبادی بلند و بالا عمارتوں کا جنگل ہر طرف پھیل رہا ہے نہ کوئی قانون ہے نہ ہی محکمے باز پرس کرتے ہیں کہ ایک دو منزلہ ایک سو بیس گز کے گھر کو توڑ کر اس پر آٹھ منزلہ عمارت کھڑی کر دی گئی۔ دو گھروں کے 16 فلیٹ بنا دیے گئے۔ کہیں 400 گز کے گھر یا شادی ہال کو توڑ کر 12 منزلہ عمارت کھڑی کر دی گئی جس میں واقع فلیٹ ایک علیحدہ یونٹ ہیں۔ ذرا غورکیجیے کہ پانی کی جو لائن ہے وہ 120 گز یا 400 گز کے گھر کے لیے ہے۔ یہی حال بجلی اور گیس کا ہے۔

بلڈنگیں کھڑی کر دی گئی ہیں لیکن قبضہ نہیں دیا گیا کہ بجلی، گیس اور پانی کا کنکشن نہیں ہے۔ سو پانی کی کمی کو بورنگ کے ذریعے پورا کر دیا گیا۔ جائزہ لیجیے تو معلوم ہو گا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نہایت گہرائی میں جا کر بورنگ کی گئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ماہرین ارضیات کے مطابق شہر کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ کیونکہ زمین اپنی مطلوبہ نمی کی کمی کے باعث خطرہ بن جائے گی۔

دوسری طرف امن و امان کی صورت دیکھیے تو بعض علاقے، بعض لوگوں کے لیے اب بھی نوگو ایریاز ہیں۔ لوگ دن میں بھی ادھر جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ بابا لاڈلا، عذیر بلوچ اور رحمان ڈکیت کی کہانیاں ابھی زندہ ہیں۔ چلتی بس یا ویگن سے مسافروں کو اتار کر ان سے شناختی کارڈ طلب کرنا اور پھر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سے ان کا لسانی پس منظر معلوم ہونے پر گولی کا نشانہ بنا دینا اب بھی جاری ہے۔ ایک دہشتگرد گروپ کو ’’اپنے بچے‘‘ کہنے والوں نے قتل عام پر خوشی کا اظہار کیا کچھ علاقے اتنے خوفناک ہیں کہ مغرب کے بعد لوگوں کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ بتیاں بجھا دیں اور باہر نہ نکلیں …!!… اس وقت کیا ہوتا ہو گا…؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے۔

ہمارا الیکٹرانک میڈیا جس کے پاس ریٹنگ بڑھانے کے لیے جھوٹ بولنا کوئی بری بات نہیں۔ اس کے پاس بھی کراچی کے مسائل پر کوئی ٹاک شو کرنے کا وقت نہیں۔ شام ہوتے ہی دیہاڑی داروں کا مختلف چینلوں پر حملہ ہوتا ہے۔ لیکن صرف اور صرف سیاست … سب کے اپنے اپنے ڈھول تاشے ہیں۔ ہر طرف ایک ہاہا کار مچی ہے۔ زمینی حقائق سے نظریں چرا کر صرف لایعنی باتوں کی طرف توجہ دی جاتی ہے کیونکہ ان ہی بے مقصد ٹاک شوز سے اینکر اور چینل دونوں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ صبح سے شام تک صرف جھوٹ کا کاروبار چلتا ہے۔

یہ جھوٹ اتنے تواتر اور یقین کے ساتھ بولا جاتا ہے کہ دیکھ کر اور سن کر افسوس ہوتا ہے، کوئی اخلاقیات نہیں۔ پندرہ دن میں پچاس پونڈ وزن کم کرنے کے دعوؤں کے ساتھ چند دن میں کسی کریم کے استعمال سے رنگ گورا کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ احمقانہ کولڈ ڈرنگ کے اشتہار ہمارے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔

اور اب ذرا تعلیمی اداروں کا حال دیکھیے کہ سرکاری اسکول اورکالجوں کا کیا حال ہے۔ بعض کالج کی عمارتیں انتہائی خستہ ہو چکی ہیں۔ اساتذہ آتے نہیں ہیں اور اساتذہ کی یہ دلیل بھی قابل غور ہے کہ طلبہ کالج نہیں آتے، یہ بات صحیح ہے کہ طلبہ و طالبات ایڈمیشن لینے کے بعد صرف کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں، لیکن یہ قصور آپ کے سسٹم کا ہے۔ اگر کالج کا پرنسپل 75 فی صد حاضری پر عمل کروائے اور جن طلبہ و طالبات کی حاضری کم ہو انھیں بتا دیا جائے کہ ان کا امتحانی فارم بورڈ آفس نہیں بھیجا جائے گا تب دیکھیے کہ کالجوں کی کلاسیں آباد ہوتی ہیں یا نہیں۔

در اصل اب اساتذہ بھی دیہاڑی لگانے آتے ہیں، رجسٹر میں حاضری لگائی اسٹاف روم میں بیٹھے چائے پی اور روانہ۔ یہ رجحان بوائز کالجوں میں عام ہے جب کہ گرلز کالجوں میں صورت حال نسبتاً بہتر ہے، لیکن مجموعی طور پر اگر سندھ کی بات کی جائے تو اندرون سندھ نقل مافیا اس حد تک سرگرم ہے کہ کھلی کتابیں رکھ کر سیاسی بنیادوں اور رشوت کے زور پر خوب نقل ہوتی ہے۔ جب کہ کراچی میں دور دراز علاقوں اور گوٹھوں میں قائم کالجز بھی نقل مافیا کا حصہ ہیں۔ لیکن شہری علاقوں میں واقع گرلزکالجز اس وباء میں کم مبتلا ہیں۔ یہ سب اس شہر میں ہو رہا ہے جس کا نام کراچی ہے۔ جس میں خستہ عمارتوں کا جال بچھا ہے۔ ٹینکر مافیا کو وافر پانی ملتا ہے لیکن مکینوں کو پانی خریدنا پڑتا ہے۔

خیر سے پی پی نے اپنے دور میں ٹینکر مافیا کو سرگرم کیا۔ خوب مال بنایا گیا، نوٹوں سے بھرے ہوئے بریف کیس ٹی وی اسکرین پر سب نے دیکھے لیکن کیا کیجیے کہ نہ تو انھیں یہ کہتے ہوئے عار محسوس ہوا تھا کہ ’’حکومت مل گئی تو چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو نام بدل دوں گا‘‘ پھر یہ مدت چھ ماہ سے بڑھ کر دو سال ہو گئی۔ لیکن نام ابھی تک نہیں بدلا۔ اور اب نئے الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ لوگوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ پارٹیاں بدلی جا رہی ہیں لیکن ملک میں دہشتگردی اور امن و امان کی خراب صورتحال ہے اس پر کسی توجہ نہیں۔

ایک بار پھر تماشا ہو گا، ڈبے بھرے جائیںگے، اقتدار ملے گا … لیکن اس شہر ناپرسان ’’کراچی‘‘ کی قسمت کبھی نہیں بدلے گی۔ اس شہر کی تباہی کے ذمے دار وہ بھی جو عمارتیں بنانے اور نقشے پاس کرنے کے لیے بریف کیس بھر بھر کے نوٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی جو تجاوزات قائم ہونے کے بعد نوٹس لیتے ہیں تا کہ منہ مانگی رشوت مل سکے۔ پولیس کا محکمہ کراچی کے حوالے سے بد ترین محکمہ ہے اگر اس محکمے میں چند ذمے دار اور ایماندار لوگ ہوں گے تو انھیں کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ چھوٹی موٹی جگہوں پر ٹرانسفر ہوتے رہیں گے۔

کبھی وزیراعلیٰ کو آئی جی ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ اپنی پسند کا بندہ بٹھانا چاہتے ہیں۔ وفاق اور صوبوں کی لڑائی نے سب سے زیادہ نقصان کراچی کو پہنچایا ہے۔ اس شہر میں اب کوئی گرین بیلٹ نہیں ہے۔ بلڈر مافیا نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ آئندہ کا منظر نامہ بہت بھیانک ہے کہ جب کراچی کی سڑکوں پر گاڑیاں کوڑے کے اوپر چلا کریںگی۔ کیونکہ جس رفتار سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ کوڑا جمع ہو رہا ہے وہ یہی منظر پیش کرتا ہے۔ اسی لیے اس شہر میں ہر شخص پریشان ہے۔ کاش حکمران کراچی پر اسی لیے توجہ دے لیں کہ یہ کماؤ پوت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔