اسکندری طوطے شکار اور درختوں کی کٹائی سے معدوم ہونے لگے

ثنا سیف  اتوار 6 اگست 2017
چند سال بعد بچے فضا میں اسکندری طوطے نہیں دیکھ پائیں گے، ماحولیاتی تبدیلی سے اسکندری طوطا پاکستان سے روٹھ چکا ہو گا۔ فوٹو: فائل

چند سال بعد بچے فضا میں اسکندری طوطے نہیں دیکھ پائیں گے، ماحولیاتی تبدیلی سے اسکندری طوطا پاکستان سے روٹھ چکا ہو گا۔ فوٹو: فائل

کراچی: پاکستان میں اسکندری طوطے اسمگلنگ، شکار اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

60 لاکھ سال سے برصغیر کی فضاوٗں میں راج کرنے والا اسکندری طوطوں کی نسل معدوم ہورہی ہیں، جس نے اپنی خوبصورتی اور ذہانت سے لوگوں کی دلوں کو بہلایا اس نسل کے ختم ہونے کا خدشہ ایک بڑے ماحولیاتی حادثے کی مانند ہے، آئندہ آنے والے وقت میں ہم اپنے بچوں کویہ پرندہ فضا میں نہیں دکھا سکیں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث یہ اسکندری طوطا پاکستان سے روٹھ چکا ہوگا چونکہ جیسے جیسے پاکستان میں جنگلات اور درختوں کی کمی ہورہی ہیں اسی طرح ان کو اپنے مسکن کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے علاوہ زراعت میں کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال بھی ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہے اس وقت پاکستان میں طوطوں (Parakeet) کی 4 اقسام ملتی ہیں، جس میں (Alexandraine, Rose ringed, Plum Headed, Slaty Headed) شامل ہیں، ان میں سب سے خوبصورت ،جاذب نظر اور ذہانت میں اپنی مثال آپ اسکندری طوطے (Alexandraine parakeet) کی نوع ہے، یہ طوطا پنجاب کے اضلاع قصور، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، فیصل آباد وغیرہ میں بکثرت ملتا تھا، اس کے علاوہ کشمیر، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے بعض علاقوں میں بھی پایا جاتا تھا لیکن محققین کے مطابق اسکندری طوطے پاکستان کی فضاؤں میں نظر نہیں آرہے ہیں۔

اس ضمن میں تحقیق جاری ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی، درختوں کی کمی اور اسمگلنگ کی وجہ سے ان طوطوں کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں، ان 60 لاکھ سال میں اس نسل نے برصغیر میںبے شمار ارضیاتی و موسمیاتی و تغیر و تبدل کا سامنا کیا، ہزاروں سمندری ودریائی طغیانی کو جھیلا، فضا میں نائٹروجن، سلفر اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی گیسوں کو برداشت کیا، انسان نے صنعتی دنیا میں قدم رکھا،جس کی وجہ سے جنگلات کم ہوتے گئے اور صنعتیں لگنا شروع ہوئیں، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی ترقیاتی کاموں اور صنعتی ترقی کے لیے د رختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ملک میں بڑھتی غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ عروج  پر پہنچ گیا۔

اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ صرف3فیصد رہ چکا ہے، اس نسل کی طوطی  سال میں 2 بار انڈے دیتی ہے اس طرح ایک سال میں 10 بچے نکلتے ہیں جبکہ گھر میں پالی جانیوالی اسکندری طوطی سال میں 3 بار انڈے دیتی ہے اس طرح سال میں ایک طوطی 15بچے پیدا کرتی ہے اسکندری طوطے جنگل میں خوارک کے لیے محنت کرتے ہیں جبکہ گھر میں ان کو بہتر خوراک ملتی ہے جو کہ بہتر غذائی اجزا سے بھرپور ہوتی ہیںاس نسل کے طوطے کی معدومی میں طوطوں کی بین الاقوامی تجارت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

2008 سے طوطوں کی باہر ایکسپورٹ پر پابندی عائد ہے اسی وجہ سے لوگ اس کی اسمگلنگ کر کے بھاری نفع کماتے ہیں، بین القوامی سطح پر ایک فی جوڑے کی قیمت 10 لاکھ روپے ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں بھی پالتو پرندے کے طور پر پالا جاتا ہے، پاکستان میں عام طور پر اس طوطے کی قیمت 25 سے 40 ہزار روپے فی جوڑا ہے، پاکستان میں لگ بھگ دو لاکھ اسکندری طوطے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور کم وبیش 5 ہزار سے زائد فارمز ہیں جہاں پر اس نوع کی تجارتی بنیاد وں پر افزائش کی جاتی ہیں، ان لوگوں پر قانونی چارہ جوئی کے بغیر اسکندر کی بحالی ممکن نہیں۔

اس نوع کے پنکھ میں سبز، گلابی، زرد، سیاہ، یاقوتی اور قرمزی رنگوں کے pigments پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بین القوامی منڈیوں میں اس کی بڑی مانگ ہے، پاکستان کی 160 جامعات میں سے کسی نے بھی اسکندر کی حالت پرکھنے کی کوشش نہیں کی، اس اسکندری طوے کی بقا کے لیے حکومتی سطح پر اس نوع کی تجارت، شکار اور پالتو پرندے کے طور پر رکھنے کے حوالے سے پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔