آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی

میاں اصغر سلیمی  اتوار 6 اگست 2017
ویمنز کرکٹ میں روایت بن چکی ہے کہ ہر دورے کے بعد شکست کا ملبہ کسی کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ فوٹو: نیٹ

ویمنز کرکٹ میں روایت بن چکی ہے کہ ہر دورے کے بعد شکست کا ملبہ کسی کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ فوٹو: نیٹ

وقت بیتتے دیر نہیں لگتی، ابھی یہ کل ہی کی بات لگتی ہے جب ثنا میر نے عروج ممتاز کے بعد 4مئی 2009ء کو پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی، ان آٹھ برسوں میں ثنا میر نے پاکستان کو کرکٹ میں ایک خاص مقام دلایا۔

ایشین گیمز 2010ء اور 2014ء میں پاکستانی ٹیم کو 2 بار گولڈمیڈلز جتوائے ، گزشتہ 9 برس سے آئی سی سی کی ٹاپ رینکنگ میں رہیں، اب بھی ایک روزہ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں ان کا نمبر چھٹا ہے، پہلی پاکستانی خاتون کرکٹر ہیں جنہیں ایک روزہ کرکٹ میں 100 وکٹیں حاصل کرنے اور حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز کا ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ وقت وقت کی بات ہے اور شاید اب وقت ثناء میر کے ہاتھ میں نہیں رہا، حال ہی میں آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی بدترین شکستوں کا ملبہ ثناء میر پر گرا دیا گیا ہے، کوچ صبیح اظہر کی رپورٹ ثناء میر کے خلاف آ چکی،ایک خبر کے مطابق سیکرٹری برائے ویمنز ونگ شمسہ ہاشمی نے بھی کپتان کی کارکردگی کو غیرتسلی بخش قرار دیا ہے۔ اس صورتحال کے بعد ثناء میر نے پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کو خیر باد کہنے کا اعلان کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری ایک کھلے خط میں قومی ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان نے کوچ صبیح اظہر کی رپورٹ میڈیا پر آنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈیانا بیگ کو ٹیم میں شامل نہ کرنے پر کوچ کے ساتھ سب سے بڑا اختلاف تھا، پیسر اچھی فارم میں تھیں اور انہیں ٹیم کا حصہ بنانا چاہتی تھی، مجھے اپنے فیصلوں پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، ورلڈ کپ میں 4 میچز میں یقینی فتح سے ہاتھ دھونے پڑے، سپنرز خصوصا لیفٹ آرم اسپنرز نے نئی بال کے ساتھ ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو قابو کیا، میری ترجیح تھی کہ اس حوالے سے میڈیا پر کوئی بات نہ کروں لیکن کوچ کی خفیہ رپورٹ منظر عام پر آنے، جی ایم ویمنز ونگ اور چیئرمین پی سی بی کی جانب سے ان پر کیے جانے والے تبصروں کے بعد یہ راستہ اپنایا۔

یہ بات تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ورلڈ کپ میں شامل تمام ٹیموں میں پاکستانی ٹیم سب سے کم تجربہ کار ٹیموں میں سے ایک تھی، مگر اس کے باوجود پاکستانی ٹیم نے عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا، ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم ان ٹیموں کے خلاف میدان میں اتری جو کئی دہائیوں سے کرکٹ کھیلتی چلی آ رہی ہیں، جبکہ ان ٹیموں کو ہماری ویمنز کرکٹ سے کئی گنا زیادہ وسائل اور سہولیات بھی حاصل ہیں مگر اس کے باوجود بھی پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کو شکست کے کافی قریب لے آئی اور بھارتی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں ان کے کم ترین سکور 169 رنز تک محدود کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ ٹیمیں جو پاکستان کے ہم پلہ کہی جا سکتی ہیں، ان کے ہاتھوں اگر پاکستان نے شکست بھی کھائی ہے تو کسی بڑے مارجن سے نہیں، ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت صرف 19 رنز اور سری لنکا کے خلاف صرف 15 رنز سے میچ ہاری تھی۔

کئی میچز میں پاکستان کی بولنگ اور فیلڈنگ کہیں شاندار تھی تو کہیں بہتر، البتہ بیٹنگ کمزور تھی اور بسمہ معروف کے زخمی ہونے سے مزید متاثر بھی ہوئی۔بسمہ معروف کی انجری اور ان کی تبدیلی نے واضح کر دیا کہ ہمارے اضافی کھلاڑیوں میں کھیل کا معیار اتنا بہتر نہیں ہے جتنا بہتر ٹاپ ٹیموں کے اضافی کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ لیکن تمام میچوں میں ناکامی کے باوجود بھی ٹورنامنٹ کی پاکستانی سٹار ٹیم کی کپتان ثنا میر ہی ثابت ہوئیں، 5 اننگز میں 30 سے زائد رنز کی اوسط کے ساتھ ثنا سب سے زیادہ بیٹنگ اوسط رکھنے والی کھلاڑی رہیں جبکہ انہوں نے بولنگ اور بیٹنگ میں بھی ٹیم کو سہارا دیا۔وہ واحد پاکستانی خاتون کھلاڑی ہیں جو آل راؤنڈر کی عالمی رینکنگ میں 10 ویں نمبر پر اور بولنگ کی عالمی رینکنگ میں 12 ویں نمبر پر ہیں۔ ثناء میر دنیا کی چھٹی اور واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جو 100 وکٹ لینے اور 1000 رنز بنانے کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔

عائشہ اشعر پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی وہ عہدیدار ہیں جنہیں گزشتہ ایک دہائی سے خواتین کرکٹ کے لئے لازم وملزوم سمجھا جا رہا ہے، نہ جانے ان کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ ٹیم کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو، کوئی بھی انہیں ٹیم منیجر کے عہدہ سے الگ نہیں کر سکتا، پی سی بی کے ویمنز ونگ میں بڑی بڑی طاقتور چیئرپرسن آئیں اور چلی گئیں لیکن کوئی بھی ان کا بال بیکا نہ کر سکا، عائشہ اشعر کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ٹیم میں سینئرز کا گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے، اپنی رپورٹس جونیئر کھلاڑیوں کے خلاف لکھتی اور اپنی پسندیدہ سینئر پلیئرز کو بھر پور سپورٹ کرتی ہیں۔

ویمنز کرکٹ میں روایت بن چکی ہے کہ ہر دورے کے بعد شکست کا ملبہ کسی کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے، ورلڈ کپ میں جانے سے پہلے لندن میں ٹریننگ کیمپ لگایا، جس پر کرکٹ بورڈ کے بھاری اخراجات ہوئے، اس وقت سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن جیسے ہی ورلڈ کپ کی کارکردگی سامنے آئی، ہار کا ملبہ کپتان پر ڈال دیا گیا۔

اگر تمام میچوں میں ناکامی کا بوجھ صرف اکلوتی کپتان پر ڈالا جا رہا ہے تو پھر ذرا یہ بھی بتائیے کہ نجم سیٹھی کس کام کے لیے بیٹھے ہیں؟ چیئرمین کا کردار کیا ہوتا ہے؟ شمسہ ہاشمی کیا کر رہی ہیں؟ صبیح اظہر کو کیوں عجلت میں کوچ بنایا گیا؟ اگر وہ کوچ بن ہی گئے تھے تو انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے کیوں نہیں نبھائیں؟ سلیکشن کمیٹی باصلاحیت پلیئرز کو تلاش کرنے کی بجائے کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی؟ انتظامیہ صرف کپتان پر الزامات کا ڈھیر لاد کر اور کوچ کو برخاست کر دینے سے اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ قومی خواتین کرکٹ کا قبلہ درست کرنے کے لئے اصل ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔