کم ال سنگ

زبیر رحمٰن  پير 7 اگست 2017
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

کم ال سنگ 15 اپریل 1912 میں پیدا ہوئے اور 8 جولائی 1994 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ 1948 سے 1972 تک کوریا کے وزیراعظم رہے اور 1972 سے 1994 تک صدر رہے۔ وہ ورکرز پارٹی آف کوریا کے 1949 سے 1994 تک رہنما رہے۔ کم ال سنگ کا خاندان جاپان مخالف سرگرمی میں مصروف رہا۔ اسی خاطر ان کے خاندان کو منچوریا ہجرت کرکے جانا پڑا۔ صرف ان کا خاندان ہی نہیں بلکہ بیشتر خاندانوں کو ایسا کرنا پڑا۔ انھوں نے کوریا پر جاپانی قبضے کے خلاف 29 اگست 1910 سے لڑائی شروع کی۔ خصوصاً کم کی ماں کینگ بین سک نے جاپان مخالف جدوجہد میں قابل ذکر کردار ادا کیا۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں صرف 1912 میں 52000 کورین شہری گرفتار کر لیے گئے۔ اکتوبر 1926 میں کم نے ’’ڈاؤن ویلتھ امپیریلزم یونین‘‘ یعنی سامراج مخالف اتحاد کی بنیاد رکھی۔ کم نے 1926 میں واشنگٹن میں ملٹری اکیڈمی میں شرکت کی، مگر وہاں سے 1927 میں لوٹ آئے۔ جب وہ جیلین مڈل اسکول میں 1930 تک زیر تعلیم تھے، وہاں ہی سے جاگیردار مخالف ہوگئے اور کمیونسٹ نظریہ کو اپنالیا۔ جب انھوں نے سامراج مخالف تحریک میں حصہ لینا شروع کیا تو انھیں جیل میں قید کردیا گیا اور اسکول کی پڑھائی ختم ہوگئی، اسی دوران وہ جنوبی منچورین یوتھ ایسوسی ایشن کے رکن بنے، اس تنظیم کے معروف رہنما ’’ہوسو‘‘ تھے۔

جب وہ 17 سال کے تھے تو ایک زیر زمین نوجوانوں کی تنظیم بنائی، جس کے بیس سے بھی کم ارا کین تھے۔ ان کی شمولیت کے تین ہفتے بعد پولیس نے 1929 میں انھیں گرفتار کرلیا اور جیل میں قید کردیا۔ 1931 میں کم کمیونسٹ پارٹی آف چائنا میں شامل ہوگئے، جب کہ کمیونسٹ پارٹی آف کوریا 1925 میں تشکیل پائی۔ مگر وہ کمانٹرنگ سے 1930 میں نکال دیے گئے، اس لیے کہ وہ زیادہ قوم پرست نظر آتے تھے۔ پھر وہ شمالی چین کے متعدد جاپان مخالف گوریلا گروپس میں کام کرتے رہے۔ مئی1930 تک جاپان منچوریا پر قبضہ نہیں کرپایا تھا، اس لیے مشرقی منچوریا میں کسانوں کی جاپان مخالف تحریک عروج پر تھی۔ اس گوریلا جنگ کا نام ’’جاپانی جارحیت‘‘ رکھا گیا تھا۔

20 مئی 1931 میں ینچی کنٹری منچوریا میں ینگ کمیونسٹ لیگ کے مندوبین نے اجلاس میں مشرقی منچوریا میں ہونے والی کسان تحریک پر جاپان کو خبردار کیا تھا۔ 1935 میں جاپان نے مشرقی منچوریا پر قبضہ کرلیا اور آلہ کار حکومت قائم کی۔ شمال مشرقی جاپان مخالف متحدہ فوج کے رکن بن گئے جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف چین کا ایک گوریلا گروپ تھا۔ پارٹی نے انھیں اسی سال سیاسی کمیسار کے سیکنڈ ڈویژن کا کمانڈر مقرر کردیا، ان کے ماتحت 160 فوجی تھے۔ پھر انھیں پارٹی کے اعلیٰ درجے کے رہنما کینگ ثینک نے ینان میں ماؤژے تنگ سے ملاقات کروائی۔

1935میں کم نے اپنا نام ال سنگ رکھ لیا، پھر کم ’سورج‘ بن گئے۔ کم 24 سال کی عمر میں 1937 میں چھٹی ڈویژن کے کمانڈر بن گئے۔ 1940 میں کم سوویت یونین چلے گئے اور یہاں سوویت یونین، کورین کمیونسٹ گوریلا کو جنگی تربیت دیتا تھا۔ 1945 میں سوویت ریڈ آرمی میں میجر بنادیے گئے۔ 1945 میں عالمی جنگ دوئم تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 8 اگست 1945 میں سوویت یونین نے جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ ریڈ آرمی 24 اگست 1945 میں پیانگ یانگ میں داخل ہوگئی۔

دسمبر 1945 میں کم کو سوویت یونین نے کوریا کی شمالی شاخ کی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔ ستمبر 1948 میں کم نے تمام کوریا کو پیپلز ڈیموکریٹک ری پبلک آف کوریا کے طور پر اعلان کیا، جب کہ جنوب نے ری پبلک آف کوریا کا اعلان کیا۔ 12 اکتوبر کو جنوبی کوریا سمیت سارے کوریا کو سوویت یونین نے تسلیم کیا۔ پھر کمیونسٹ پارٹی، نیو پیپلز پارٹی سمیت ورکرز پارٹی آف کوریا میں مدغم ہوگئی اور کم اس کے چیئرمین بنے۔ پھر ورکرز پارٹی آف شمالی کوریا، جنوب کی پارٹی کے ساتھ اتحاد بنا کر ورکرز پارٹی آف کوریا بنی اور کم اس کے چیئرمین بنے۔

شمالی کوریا کی حکومت کوریا کو ایک کرنے کے لیے 1950 میں جنوب میں مداخلت کی اور سول سمیت جنوب کا بیشتر حصہ آزاد کرالیا۔ چھوٹا سا ایک ٹکڑا جنوب کے امریکی حمایت یافتہ حکمرانوں کے پاس تھا۔ بعد ازاں امریکا نے اپنی فوج بھیجی اور براہ راست جنوبی کوریا پر قبضہ کرکے اپنا فوجی اڈہ بھی قائم کیا۔ اکتوبر میں سامراجیوں نے پیانگ یانگ پر پھر سے قبضہ کرلیا۔ لیکن  1951میں چینی مدد سے پیانگ یانگ کو آزاد کرالیا گیا۔

امریکا اس آزادی سے خوش نہ تھا، اس لیے وہ مسلسل شمالی کوریا میں مداخلت کرتا رہا۔ ادھر دنیا بھر سے کمیونسٹ گوریلا شمالی کوریا پہنچ گئے اور یہ جنگ 1953 تک جاری رہی۔ 27 جولائی 1953 تک 2.5 ملین افراد اس جنگ میں جان سے جاتے رہے۔

اقوام متحدہ کے فیصلے کے تحت کوریا سے کمیونسٹ گوریلا اپنے اپنے ممالک چلے جائیں گے اور امریکی فوج بھی چلی جائے گی۔ کمیونسٹ گوریلا واپس چلے گئے لیکن امریکی فوج اب بھی کوریا میں موجود ہے۔ 1956 میں کم نے شمالی کوریا کو خودمختار سوشلسٹ ریاست قرار دیا۔ ویت نام پر امریکی جارحیت کے دوران شمالی کوریا نے امریکی فوج کو شمال میں مصروف رکھا، جس سے بالواسطہ طور پر ویتنام کو مدد ملی۔ آج بھی سوشلسٹ (شمالی) کوریا، دونوں کوریاؤں کو ایک کنفیڈریشن کے تحت متحد کرنے کی کوششوں میں برسر پیکار ہے، لیکن امریکی سامراج ایسا کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

شمالی کوریا کے عوام کا معیار زندگی بہتر ہے، یہاں کوئی ارب پتی ہے اور نہ گداگر، جاگیرداری ختم کردی گئی ہے، شرح خواندگی سو فیصد، بے روزگاری ناپید ہے، علاج مفت، معقول اور بروقت ہے، منشیات نوشی، عصمت فروشی، گداگری، چوری اور مہنگائی نہیں ہے۔ ہر چند کہ شمالی کوریا پر سامراجیوں نے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہے۔ شمالی کوریا نے ’ژوچے‘ نظریہ کا اعلان کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حب الوطنی اور خود انحصاریت۔ کم کی پیدائش کے دن کوریا میں چھٹی ہوتی ہے۔ کوریا آج بھی امریکی سامراج کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ ساری دنیا سامراجی تسلط سے آزاد ہوگی، دنیا کی سرحدیں ختم ہوکر دنیا ایک ہوجائے گی۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔