ھرابندر ناتھ ٹیگور کی یاد میں

ایم اسلم کھوکھر  پير 7 اگست 2017

سات مئی 1861 کو جنم لینے والا وہ بچہ والدین کی 14 ویں اولاد تھا، اسے کسی ایک شعبے کی شخصیت تسلیم کرنا گویا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی، وہ بیک وقت شاعر تھا، افسانہ نگار، ناول نگار، نغمہ نگار، مکالمہ نویس تھا، انشائیہ نگار تھا، وہ پینٹر بھی تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا کہ اسے ان تمام شعبوں پر مکمل عبور حاصل تھا اور ہاں قدرت نے اس کے اندر ایک اور صلاحیت بھی رکھی تھی، وہ اداکار بھی تھا۔ اس کی مادری زبان بنگالی تھی اور اس کا نام تھا رابندر ناتھ ٹیگور۔

اس نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر کلکتہ ہی میں حاصل کی۔ رابندر ناتھ ٹیگور کو نوجوانی ہی میں ادب سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ یہی باعث تھا کہ اس کی اولین کتاب 17 برس کی عمر میں منظر عام پر آچکی تھی۔ یہ ذکر ہے 1878 کا جب کہ وہ اسی برس حصول تعلیم کی غرض سے انگلستان چلا گیا۔ گو وہ انگلستان وکالت کی تعلیم حاصل کرنے گیا تھا مگر 18 ماہ بعد ہی بغیر ڈگری لیے ہی واپس ہندوستان آگیا۔

رابندر ناتھ ٹیگور کوئی اتفاقیہ طور پر ادب و فن سے منسلک نہیں ہوگیا تھا بلکہ اس کے دادا پرنس دوارکا چورنگی تھیٹر و ماموسی تھیٹر کے بانیان میں سے تھے۔ جب کہ ان کے والد دیوندر ناتھ ٹیگور و چاچا زاد بھائی گگیندرناتھ ٹیگور بھی اسٹیج پر اداکاری کرتے تھے، جب کہ وہ خود فقط 20 برس کی عمر ہی میں فن اداکاری سے وابستہ ہوگئے اور یہی وہ دور تھا جب انھوں نے ڈرامہ نگاری کا بھی آغاز کردیا۔ یہ ڈرامے انھوں نے اگرچہ بنگلہ زبان میں لکھے تھے مگر ہم ان ڈراموں کے اردو نام تحریر کر رہے ہیں۔

1881 میں لکھے گئے ان کے ڈرامے کا نام تھا والمیکی کی ذہانت، 1890 چڑھاوا، 1910 اندھیرے کمرے کا بادشاہ، 1912 ڈاکخانہ و ساکن، 1922 آبشار، 1926 سرخ کینسر، جب کہ 1901 میں ناول ٹوٹا گھونسلا، 1910 میں ناول گوری رنگت والا، 1916 ناول ’گھر اور دنیا‘، 1929 ناول عمل و ردعمل، 1932 میں میری یادیں، جب کہ 1940 میں میرے لڑکپن کے دن، ان کی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ جب کہ 1884 میں ان کی دو شاعری کی کتابیں قارئین کے ہاتھوں میں تھیں، ایک ٹھاکر کے نغمے، دوسری کا نام تھا مثالی۔

1890 میں انھوں نے شاعری کی کتاب سونے کی کشتی تحریر کی، 1910 میں نغموں کے نذرانے، 1914 میں نغموں کی مالا، 1916 میں کرین کی اڑان۔ ان کی شاعری کی کتب نے پڑھنے والوں میں دھوم مچادی۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے قریب قریب تین ہزار گیت لکھے اور کل ملا کر 150 کتب تحریر کیں۔

1901 میں انھوں نے اپنی ہی اراضی پر ایک مدرسہ قائم کیا۔ مدرسہ قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اہل ہند کو مشرقی و مغربی فلسفہ پڑھایا جاسکے۔ یہ ضرور ہوا کہ انھوں نے اس مدرسے کو جس کا نام شانتی نکیتن رکھا گیا تھا کی خاطر اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر ڈالی کہ یہ مدرسہ قائم ہوسکے۔ ان کا یہ مدرسہ اس قدر کامیابی سے چلا کہ 1921 میں اپنے قیام کے 20 برس بعد اس مدرسے کو بین الاقوامی یونیورسٹی وشوبھارتی کا درجہ دے دیا گیا۔ ان کی تمام تحریریں اردو ترجمے کے ساتھ بھی شایع ہوئیں جب کہ 1966 میں ان کے ڈراموں کا مجموعہ انگریزی زبان میں شایع ہوا جب کہ اہل ادب کی جانب سے رابندر ناتھ ٹیگور کو بنگلا زبان کا شیکسپیئر کا لقب بھی عطا کیا گیا۔

انھوں نے امریکا، سوویت یونین، چین، جاپان، گنی و یورپ کے کئی ممالک کے سفر اختیار کیے جب کہ 1913 میں ان کی شاہکار تصنیف گیتانجلی پر انھیں دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ برائے ادب دیا گیا، جب کہ 1915 میں برطانوی بادشاہ جارج پنجم نے سر کا خطاب دیا تھا۔ البتہ فقط چار برس بعد رابندر ناتھ ٹیگور نے برطانوی بادشاہ جارج پنجم کا عطا کردہ سر کا خطاب واپس کردیا۔

سبب اس کا یہ تھا کہ 1919 میں 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ امرتسر مشرقی پنجاب جنرل ڈائریکٹر کے حکم سے ایک اجتماع پر فائرنگ کی گئی تھی جس کے باعث کوئی چار سو لوگ جن میں اکثریت سکھوں کی تھی، اس فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے تھے اور کوئی پندرہ سو مزید لوگ شدید زخمی ہوگئے تھے جب کہ اس اجتماع میں برصغیر کا نامور ترین حریت رہنما بھگت سنگھ بھی شریک تھا، اس وقت بھگت سنگھ کی عمر فقط 12 برس تھی اور وہ کوئی سو میل کا طویل سفر طے کرکے اس اجتماع میں شریک ہوا تھا، یعنی جڑانوالہ ضلع لائلپور (موجودہ فیصل آباد) سے امرتسر تک۔

رابندر ناتھ ٹیگور بچپن ہی سے انسان دوست ثابت ہوئے، 1886 میں جب انھوں نے اپنا پہلا اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تو اس ڈرامے سے حاصل شدہ تمام رقم قحط زدہ لوگوں میں تقسیم کردی۔ پھر ہم ذکر کریں گے شانتی نکیتن کا تو اس قدر کامیابی سے چل رہی تھی کہ پورے برصغیر سے نوجوان اس یونیورسٹی میں حصول تعلیم کی غرض سے آتے اور اپنی تشنگی دور کرتے، جس کا ایک ثبوت تھے سوبھوگیان چندانی جوکہ موئن جو دڑو سے حصول تعلیم کے لیے طویل ترین مسافت طے کرکے شانتی نکیتن تشریف لے گئے تھے، یہ ذکر ہے 1940 کا۔

رابندر ناتھ ٹیگور سوبھوگیان چندانی سے نہایت شفقت سے پیش آتے اور پیار سے سوبھوگیان چندانی کو موئن جو دڑو کا آدمی کہتے تھے، جب کہ بعدازاں سوبھو گیان چندانی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے اور تادم مرگ ترقی پسند تحریک سے منسلک رہے اور سوبھو گیان چندانی کا جدوجہد کا عرصہ 74 برسوں تک محیط ہے۔

1934 سے رابندر ناتھ ٹیگور کی صحت خراب رہنے لگی اور بالآخر سات اگست 1941 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 80 برس دو ماہ تھی۔ وہ خود تو اس جہان سے چلے گئے مگر اپنا فکر و فلسفہ چھوڑ گئے اور وہ فکر و فلسفہ ہمیں انسان دوستی کا درس دیتا رہے گا۔ آج سات اگست 2017 کو ان کے انتقال کو 76 برس بت چکے ہیں، چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کے انسان دوست فکر و فلسفے کو عام کیا جائے یعنی تعلیم سب کے لیے، تفریح کے مواقع سب کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر انسانیت کے کام آنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔