صرف پشاور 1 کی خاطر

سعید پرویز  پير 7 اگست 2017

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا۔ نواز شریف نااہل قرار دیے گئے، پارلیمنٹ کی نشست کے ساتھ وزارت عظمیٰ بھی گئی۔ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف اٹھالیا ہے، ان کی کابینہ کے وزرا نے بھی حلف اٹھالیا ہے۔ 45 رکنی وزرا کابینہ کھلا اشارہ ہے اور حالات و واقعات بھی بتا رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی ہی آیندہ الیکشن تک وزیراعظم رہیں گے۔ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہی رہیں گے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بروز ہفتہ 5 اگست 2017 اپنی سیریائی رہائش گاہ چھانگلہ گلی مری سے صبح سوا نو بجے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوئے۔ اسلام آباد کے داخلی دروازے بارہ کہو پر نواز شریف کے عوامی استقبال کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ اطلاع ہے کہ نواز شریف پنجاب ہاؤس میں قیام کریں گے جہاں دن بھر اہم ملاقاتیں جاری رہیں گیپہلے اتوار 6 اگست 2017 کی صبح نواز شریف کا بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور کی طرف روانگی کا شیڈول تھا جو بعد ازاں تبدیل کر دیا گیا،اب بدھ کو روانگی اصل معرکہ ہوگا۔

عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سابق بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس دائر کرنے والے سب سے پہلے سیاستدان جماعت اسلامی کے سراج الحق تھے۔ پھر عمران خان اور شیخ رشید بھی پاناما کا کیس سپریم کورٹ میں لے جانے والوں میں شامل ہوگئے۔

سابق وزیراعظم کے خلاف اقامہ برطرفی کی وجہ بنا، مگر ان کے اہل خانہ اور خود ان کے خلاف نیب کی تحقیقات سے اصل حقائق سامنے آئیں گے۔

میں یہ کالم لکھ رہا ہوں دوسرے کمرے میں ٹی وی چل رہا ہے، میری بیگم نے دروازہ کھول کر مجھے اطلاع دی ہے وہ کہہ رہی ہیں ’’سعید! پانچ منٹ کے لیے آؤ اور دیکھو نواز شریف کو عوام کتنی عزت دے رہے ہیں‘‘ مگر میں کالم لکھنے میں مصروف ہوں، صاف نظر آرہا ہے خصوصاً پنجاب میں نواز شریف کی عوامی مقبولیت جوں کی توں قائم ہے۔ یہ مقبولیت بھی موجودہ سیاسی صورتحال میں ’’اہم جزو‘‘ ہے۔ اسی سیاسی ہلچل میں ایک اور جزو بھی پیدا ہوگیا ہے۔

عمران خان نے پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں یوم تشکر کے جلسے میں اختتامیہ جملہ کہا ’’اور میں آصف علی زرداری تمہارے پیچھے آرہا ہوں‘‘ کچھ یہی الفاظ عمران نے مولانا فضل الرحمن کے لیے بھی کہے۔پی ٹی آئی والوں کا موقف ہے کہ جلسے کے اگلے روز پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی پچیس تیس افراد کے ساتھ بنی گالا پہنچیں اور عمران خان سے ملاقات میں اپنا مطالبہ رکھا کہ پشاور ون کی قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے آیندہ الیکشن میں ان کو امیدوار نامزد کردیا جائے۔

عمران خان نے جواباً کہا ’’سیٹوں کا معاملہ کمیٹی کرے گی، میں اکیلا نہیں کرسکتا۔‘‘ اس انکار کے فوراً بعد عائشہ گلالئی نے ملک کی سیاسی ہلچل میں بھونچال پیدا کردیا۔( یہ پی ٹی آئی والوں کا موقف ہے،حقائق تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے) انھوں نے الزام لگایا کہ ’’عمران خان بدکردار ہے، بہنوں بیٹیوں کی عزتیں خطرے میں ہیں۔ مجھے اس نے 2013 میں پہلی بار بے ہودہ میسج بھیجا اور پھر بھیجتا رہا، عمران خان اور اس کے اردگرد لوگ بدکردار ہیں۔‘‘

یہ ساری باتیں سن کر میں سوچتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر پشاور قومی اسمبلی کی سیٹ عائشہ گلالئی کو دے دی جاتی، تو پھر عمران خان کی بدکرداری عائشہ کے اس مطالبے کی منظوری میں ڈھکی چھپی رہتی؟

عائشہ گلالئی نے یہ اچھا کیا یا برا، اس کا فیصلہ اب ’’وقت‘‘ ہی کرے گا۔ اس بھونچالی صورتحال کے نتیجے میں جو جو باتیں سامنے آرہی ہیں وہ نہایت تکلیف دہ ہیں۔ ان باتوں سے بہتری نہیں بدتری نکلے گی۔ اب پارلیمانی کمیٹی بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں کہا ہے ’’ہمارے لیے عمران خان اور گلالئی دونوں قابل احترام ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بات پارلیمنٹ میں ہی رہے، باہر نہ جائے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کے ماتحت ایک کمیٹی بن جائے جو ’’ان کیمرہ‘‘ تحقیقات کرے۔‘‘ مگر ہمارے ملک میں ’’ان کیمرہ‘‘ باتیں کب مخفی رہی ہیں۔ جو کچھ اس کمیٹی میں ہوگا لمحہ بہ لمحہ باہر آتا رہے گا اور ریڈیو ٹی وی عوام تک پہنچتا رہے گا۔ جہاں اہم اور حساس خبریں لیکس ہوجائے وہاں اس مجوزہ کمیٹی کی کیا حیثیت ہے۔ عوام میں یہ بات عام ہے کہ عمران خان نے ابھی اور بھی مگرمچھوں کے پیچھے جانا تھا، لہٰذا اس کا رستہ روکنے کے لیے یہ بھونچال لایا گیا ہے۔ اور عوام یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’عمران! تم ملک لوٹنے والوں کا پیچھا جاری رکھو۔‘‘

عوام یہ بھی کہہ رہے ہیں ’’عمران! لٹیروں، ڈاکوؤں، غاصبوں، قابضوں کے خلاف اپنا ’’کردار‘‘ جاری رکھو، وہ جو بدکرداری ہے، اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دو۔‘‘ یہ بات تو عائشہ گلالئی نے نکال دی ہے اور اب بقول شاعر ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘ اور اس دور تلک میں ایک نام نعیم الحق کا تو آ ہی گیا ہے اور آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ عائشہ گلالئی نے یہ بھیالزام لگایا ہے کہ ’’عمران شادی کا بھی کہتا رہا ہے میں اپنے والد اور بھائی کو عمران کے پاس لے گئی، میرے والد نے عمران سے پوچھا ’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘

یہ باتیں بھی مجوزہ کمیٹی میں ہوں گی۔ ابھی تو اور بہت سے ’’رولے‘‘ ہیں جو مکے (ختم) نئیں، کہ ایک اور ’’رولا‘‘ پڑ گیا۔ بہرحال! عمران خان! تم اپنا کام جاری رکھو اور الزام لگانے والوں سے یہی کہنا ہے ’’صرف پشاور 1 کی خاطر؟‘‘

ایک پرانے شاعر کا شعر ہے، میں نے بھی بہت لکھا۔ دہراتے ہوئے اجازت

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔