نواز شریف کی نااہلی‘ ایک تجزیہ

زمرد نقوی  پير 7 اگست 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ انھوں نے اس رائے کا اظہار نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حلف برداری کی تقریب میں کیا۔ اس سوال کے جواب میں آپ جمہوری عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ آرمی چیف نے کہا کہ جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں اور مطمئن ہیں۔ ہر چیز ٹھیک جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحافیوں سے بات کرنا خطرناک ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ آپ جمہوری عمل کو کیسے دیکھتے ہیں آرمی چیف نے دلچسپ جواب دیا کہ جیسے دوسرے دیکھ رہے ہیں۔

آرمی چیف نے صحیح کہا کہ جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے چوتھے روز مسلم لیگ کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حلف اٹھا لیا جس سے پوری دنیا میں یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل ہے اور یہاں جمہوریت پوری مضبوطی سے قائم ہے۔ اسمبلیاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ صرف وزیراعظم تبدیل ہوا ہے۔ جمہوریت میں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ پوری دنیا میں جمہوری نظام میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور نظام زندگی چلتا رہتا ہے۔ نہ سڑکوں پر احتجاج اور توڑ پھوڑ ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے جمہوری نظم و ضبط کے اندر ہوتا ہے۔

اس دفعہ پاکستان میں بالکل مختلف ہواہے یعنی نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے۔یہ تیسری مرتبہ ہے کہ نواز شریف اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ اس دفعہ تو پھر بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ دیر وزیراعظم رہے یعنی چار سال اور تقریباً دو ماہ۔ پہلے دو مرتبہ ان کی مدت وزارت عظمی بمشکل پونے تین سال ہی رہی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مدت پوری کی یہ اور بات کہ انھوں نے چند ماہ پہلے اپنی مرضی سے الیکشن کرائے۔

قانونی ماہرین کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ کیوں کہ نواز شریف نااہل ہو گئے ہیں اس لیے اب وہ اپنی پارٹی کے صدر بھی نہیں رہے۔ کیونکہ پارٹی ان کے نام پر رجسٹرڈ ہے اس لیے سوچا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو قائد بنا کر پارٹی کا صدر کسی اور کو بنایا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف صرف نااہل ہی نہیں تاحیات نااہل ہو گئے ہیں۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ وہ تاحیات نااہل ہوئے ہیں یا نہیں لیکن آنے والا وقت یقیناً ان کے لیے آزمائشی ہے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنسز احتساب بیورو میں بھیج دیے ہیں۔

ان مقدمات کو دائر کرنے کے لیے نیب کو 6 ہفتے کی مہلت دی گئی ہے اور مقدمے کے فیصلے کے لیے عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں ان مقدمات کا فیصلہ کریں۔ یعنی فیصلہ 6 ماہ کے اندر بھی آ سکتا ہے۔ اس حساب سے فیصلہ اگلے سال کے شروع فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں آ سکتا ہے جب نئے الیکشن بالکل سر پر ہوں گے۔

جے آئی ٹی کی طرح سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے پر بھی متنازعہ تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ ویسے بہتر تو یہی تھا کہ پانامہ کا فیصلہ پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ٹی او آرز سے ہوتا جس کا اپوزیشن مطالبہ کر رہی تھی لیکن مسلم لیگ ن حکومت اس معاملے پر شعوری طور پر تاخیری حربے استعمال کرتی رہی۔

آخر کار یہ معاملہ بھی سڑکوں پر چلا گیا۔ یہاں تک قوم کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پارلیمنٹ کے ٹی او آرز نہ ماننے کے پیچھے مسلم لیگ ن حکومت کی یہ سوچ تھی کہ ماضی میں کبھی عدلیہ کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف نہیں آیا چنانچہ اس دفعہ بھی فیصلہ خلاف نہیں آئے گا اور ماضی کی تاریخ دہرائی جائے گی لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ لوح تقدیر میں  کچھ اور لکھا تھا۔ ماضی میں فیصلہ اس لیے نواز شریف کے حق میں آتا رہا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی۔

یہ نواز شریف کی خوش قسمتی کی انتہا تھی جسے رائز اینڈ رائز آف نواز شریف بھی کہا گیا۔ بینظیر اسی بنیاد پر نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا BLUE EYED BOY کہتی تھیں۔ نواز شریف اس دفعہ بھی اس خوش فہمی کا شکار تھے چنانچہ مارے گئے۔ آج کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ یا لاڈلے نہیں رہے۔ اب یہ مقام اور رتبہ کسی اور کو مل گیا ہے۔ سمجھنے کے لیے کسی دماغ سوزی کی ضرورت نہیں۔

اب مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ کی وہ مجبوریاں ہیں نہ مصلحتیں اور ہمارے جیسے ملکوں میں صرف عوامی حمایت پر اکتفا کرنا پھانسی گھاٹ بھی پہنچا سکتا ہے۔ اس نکتے کو جب بینظیر نے سمجھ لیا تبھی وہ دو مرتبہ وزیراعظم بن سکیں۔ اپنے خاندان کے عبرت ناک انجام کے بعد ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ وہ سامراج اور اس کی مقامی قوتوں سے سمجھوتہ کریں۔ چنانچہ آج پیپلز پارٹی بھی پاکستان میں موجود ان سیاسی مذہبی قوتوں سے مختلف نہیں جو امریکا نواز ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جن حالات میں اقتدار میں آئے یا لایا گیا یہ ان کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ حقیقی معنوں میں سامراج مخالف پارٹی بنا سکتے۔ نعروں کی حد تک پیپلز پارٹی سامراج مخالف پارٹی ضرور تھی لیکن اس سے زیادہ نہیں کیونکہ اس سے زیادہ کی انھیں اجازت بھی نہیں تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سرد جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں جو امریکی سامراج کے لیے زندگی اور موت کا مرحلہ تھا‘ مسلم بلاک، تیل کے ہتھیار اور ایٹمی پروگرام کے ذریعے خطے میں پاکستان کے کردار اور اس کے مفادات کے لیے سامراج سے سودے بازی کرنے کی کوشش کی تو ان کی اس جسارت کو ناقابل معافی سمجھا گیا۔ چنانچہ بغاوت ناقابل معافی جرم ٹھہری… اور باغی کا خاتمہ کر دیا گیاا۔ نواز شریف کی اہمیت ماضی میں بھٹو پیپلز پارٹی مخالف ہونے کی وجہ سے تھی جب پیپلز پارٹی نے سامراج کے آگے گھٹنے ٹھیک دیے تو نواز شریف کی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔

جہاں تک عائشہ گلالئی کا معاملہ ہے اس کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب نواز شریف کو عدالت عظمیٰ میں عمران خان کے ہاتھوں نااہلی کی شکل میں اپنی زندگی کی بدترین سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے عوام کی توجہ نااہلی سے ہٹ جائے۔ چنانچہ کردار کشی کا آزمودہ ہتھیار اپنایا گیا جس کا استعمال ماضی میں نصرت بھٹو اور بینظیر کے معاملے میں کامیابی سے کیا گیا۔ چنانچہ اب یہی ہتھیار دوبارہ عمران خان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

عائشہ گلالئی سکینڈل کے حوالے سے اہم تاریخیں 13,12,10,9 تا 15اگست ہیں۔

سیل فون: 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔