کیس 3000

راؤ منظر حیات  پير 7 اگست 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

تل ابیب کا پولیس ہیڈکواٹر مکمل طورپرمعمول کے مطابق کام کررہاتھا۔یونیفارم میں ملبوس اسرائیلی پولیس کے افسراپنے اپنے دفاترمیں آرام سے مصروفِ کار تھے۔ عمارت سے باہرسڑک پرکسی قسم کاجلوس یامظاہرہ نہیں ہورہا تھا۔زندہ بادیامردہ بادکی آوازدوردورتک کہیں سے بھی نہیں آرہی تھی۔کچھ بھی ایساخاص نہیں تھا،جسے خلافِ معمول سمجھاجائے۔یہ صرف اورصرف ہفتہ دس دن پہلے کی بات ہے۔یعنی پچھلے ماہ کی تیس تاریخ کی۔

ہرمعاملہ اپنی جگہ درست تھا۔مگراہم بات یہ تھی کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہوکے قریبی چھ رفیق سنگین مالیاتی کرپشن کے الزامات کے تحت زیرِتفتیش تھے۔پولیس ہیڈکواٹرکے باہرکیمروں کی کوئی لائن موجودنہیں تھی۔کوئی روسٹرم یاڈائس بھی نہیں تھا،جہاں وزیراعظم کے دوستوں نے تفتیش سے فارغ ہوکرقوم سے خطاب کرناتھا۔لوگوں کو بتانا تھاکہ اندرپولیس کے افسران کارویہ کتناسخت اورسفاک تھا۔

پورے اطمینان سے پولیس ہیڈکواٹرمیں قانون کے مطابق تمام مراحل طے کیے جارہے تھے۔نیتن یاہویعنی وزیراعظم کی طرف سے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا کہ اسے اوراس کے دوستوں کوتختہِ مشق بنایا جارہا ہے۔ معاملہ انتہائی سادہ ساتھابلکہ ہے کیونکہ ابھی تک ضابطہ کی کاروائی جاری و ساری ہے۔اسرائیلی بحریہ نے جرمنی سے تین آبدوزیں خرید نے کامعائدہ کیاتھا۔اس معاہدے کی منظوری وزیراعظم نے دی تھی۔پورامعاہدہ تقریباًدوبلین ڈالر کاتھا۔

پچھلے برس بحریہ نے وزارت دفاع کولکھ کربھجوایاکہ ان کی آبدوزوں کوتبدیل کیاجاناچاہیے کیونکہ یہ پرانی ہوچکی ہیں۔جدیدآلات سے مزین نئی آبدوزیں اسرائیل کی دفاعی طاقت کوبڑھانے کے لیے ناگزیرہیں۔یہ عام سی سرکاری التجا تھی۔اس طرح کے خطوط ہرملک میں معمول کے مطابق لکھے جاتے ہیں۔ کبھی انکاجواب نفی میں آجاتاہے اورکبھی اثبات میں۔ وزارت دفاع بنائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ بری،بحری اورفضائی طاقت کو بھرپور رکھے اوراس میں کسی قسم کاسقم نہ آنے دے۔

اسرائیل کی وزارت دفاع نے بحریہ کی اس ضرورت کاہرطریقہ سے جائزہ لیا۔پرانی آبدوزوں کا بھرپورمعائنہ کیاگیا۔ٹھوک بجاکرتمام آلات چیک کیے گئے۔معائنہ کایہ کام انجان آدمیوں نے نہیں بلکہ بے حد تربیت یافتہ پروفیشنلزنے سرانجام دیا۔پوری تسلی کے بعد قراردیاگیاکہ بحریہ کی ضرورت بالکل جائز ہے۔اسے حقیقت میں نئی آبدوزوں کی اَزحدضرورت ہے۔پوراکیس ضابطے کے مطابق ترتیب دیاگیا۔طے یہ پایاکہ دفاعی ضرورت کواخبارمیں اشتہارکی صورت میں شایع کیا جائے۔

ٹینڈرکی ترتیب بھی مشاق ماہرین نے سرانجام دی۔یعنی کوئی ایساجزونہیں تھاجوڈھیلا چھوڑدیاگیاہو۔جیسے ہی تمام قانونی ضابطے مکمل کرلیے گئے توباقاعدہ کمپنیوں کے بیان کردہ قیمت کابھی تقابلی جائزہ لیاگیا۔میرٹ کے اوپرجرمنی کی کمپنی کوٹھیکہ دیدیا گیا۔پوری دنیامیں اس ادارہ کانام مستند ترین گردانا جاتاہے۔بنائے ہوئے بحریہ کے جنگی سازو سامان بہت اعلیٰ کوالٹی کے بتائے جاتے ہیں۔معمول کے مطابق پوراکیس وزیراعظم کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا۔

نیتن یاہونے پرانی آبدوزیں بذات خود جا کر معائنہ کیں۔ ان کے اندرکچھ دیرسفربھی کرتارہا۔بحریہ کے افسروں نے نئی آبدوزوں کی ضرورت پرہرطریقے سے مطمئن کردیا۔ تنقیدی نظرسے ہرضرورت کاجائزہ لینے کے بعد نیتن یاہو نے معاہدہ کی اجازت دیدی۔ جرمنی کی حکومت کو لکھ کر بتا دیاگیاکہ اسرائیل ان کی ایک کمپنی سے دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے آبدوزیں خریدے گا۔

اتنے بڑے کاروباری آڈرکے لیے جرمنی کی حکومت نے نہ صرف ہاں کردی بلکہ یہ بھی بتایاکہ اس معاہدے میں کچھ قرض بھی دے گی۔ یعنی خریدنے کے لیے بوجھ اسرائیلی حکومت کے اوپرمکمل طور پر نہیں پڑیگا۔خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں کہ دونوں حکومتوں نے ایم او یودستخط کرنے کی تاریخ بھی طے کرلی۔ یہ شائداس سال کے ستمبر اکتوبر میں عملی طور پر طے ہونا تھا۔ یعنی ابھی تک معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ مگر اچانک ہرچیزتبدیل ہوگئی۔

ایک تحقیقی جرنلسٹ نے مقامی اخبارمیں خبرشایع کی کہ اسے اندیشہ ہے کہ ڈیل میں وزیراعظم کاقریبی وکیل، اس کاایک دوست اورچندقریبی ساتھی فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ دوبارہ عرض کرونگاکہ صرف شبہ تھاکہ اس پورے معاملے میں کسی نہ کسی طرح نیتن یاہوکے چندقرابت دارفائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔یہ سب کچھ”ممکنہ حیثیت”کاحامل تھا۔یعنی صرف شبہ تھاکہ ایسی کرپشن ہوسکتی ہے۔

اسرائیل کے اخبارات نے قیامت برپا کردی۔پوری دنیامیں خبریں شایع ہونے لگیں کہ جرمنی سے مستقبل میں خریدنے والی آبدوزوں میں ناجائزمالی فائدہ اُٹھایاجاسکتاہے۔نتین یاہومکمل طور پر زیرِعتاب آگیا۔ذہن میں ہوناچاہیے کہ دنیاکے سب سے طاقتورملک کاوزیراعظم ہے۔اس ملک کے دم سے پوری دنیا کا اقتصادی نظام قائم ودائم ہے۔ اسرائیل کاوزیراعظم جب چاہے،امریکی صدرسے بات کرسکتاہے اورمل بھی سکتا ہے۔ پوری دنیاکے یہودی اس کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔

لکھنے کی ضرورت نہیں کہ جس کرہِ ارض پرہم سانس لے رہے ہیں، اس کااقتصادی شعبہ، یعنی بینک،انشورنس کمپنیاں اور دیگر مالیاتی ادارے مکمل طور پر یہودیوں کے قبضے میں ہیں۔ان کی گرفت میڈیاپراس درجہ مضبوط ہے کہ کوئی نشریاتی یااخباری ادارہ ان کے سامنے دم نہیں مارسکتا۔

جرمنی میں کتنے یہودی مارے گئے،کوئی مائی کالعل اسرائیلی حکومت کی طرف سے شایع شدہ اعداد سے اختلاف نہیں کرسکتا۔یعنی اگر اسرائیل کہتاہے کہ جرمنی میں دوسری جنگ عظیم میں ایک کروڑ یہودی مارے گئے توکوئی اختلاف نہیں کرسکتا۔ چند جید اینکرز اور تاریخ دانوں نے اختلاف کیا۔ پَل میں انھیں نوکریوں سے نکال باہر کیا گیا۔ اس کے بعدوہ تاریخ کی تاریکی میں گم ہوگئے۔کیونکہ انھیں کہیں بھی دوبارہ نوکری نہیں مل سکی۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پوری دنیا پر اسرائیل کی بالواسطہ یابلاواسطہ کسی نہ کسی طرح کی اجارہ داری ہے۔

نیتن یاہوکے ذاتی وکیل ڈیوڈشمرون کوپولیس نے دوران تفتیش فناکرکے رکھ دیاگیا۔مائیکل گینر(Micheal Ganor)جرمنی کی کمپنی کااسرائیل میں نمایندہ مقرر کیا گیا تھا۔اس نے پولیس کے سامنے صرف یہ کہاکہ اس دفاعی ڈیل میں شمرون کوبے انتہامالی فائدہ پہنچ سکتاہے۔مزیدیہ کہ شمرون،وزیراعظم کاوکیل بھی ہے اورذاتی دوست بھی۔ جائز یاناجائزکی توبات ہی نہیں ہوئی۔

پولیس نے دوران تفتیش یہ خدشہ ظاہرکیاکہ ڈیوڈشمرون کومالی فائدہ میں ہوسکتاہے کہ وزیراعظم بھی حصہ دارہوں۔اس کے بعدوزیراعظم کے ساتھ جوکچھ ہوا،آپ تصورنہیں کرسکتے۔اس کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی شروع ہوگئی۔پولیس کی تفتیش میں”ممکنہ کرپشن” کے شائبہ کے زیرِاثرجرمنی کی حکومت نے اعلان کردیاکہ اسرائیل کوآبدوزیں فراہم نہیں کریگی۔ہونے والے ایم اور یوکوبھی مکمل طورپرمنسوخ کردیاگیا۔

اسرائیلی وزیراعظم کی جرات نہیں ہوئی کہ مقامی پولیس چیف کوکسی طریقے سے بھی زیرِاثرکرسکے۔اسے کوئی لالچ دے سکے۔اس نے کوئی نمایندہ نہیں بھیجا جو اسے کوئی مالی فائدہ یارشوت پیش کر سکے۔اب نیتن یاہوکاپوراسیاسی مستقبل گرداب میں ہے۔ اگرپولیس یہ ثابت کرگئی کہ وزیراعظم کے وکیل اوردوست ممکنہ مالی فائدے کوآگے تک پہنچاسکتے تھے تونیتن یایوکونہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑینگے بلکہ بقیہ عمر جیل میں سڑے گا۔یہ سب کچھ ممکنہ کرپشن کے الزام کی بدولت ہے۔

اصل میں کچھ بھی نہیں ہوا۔نہ آبدوزیں خریدی گئیں،نہ ہی کسی قسم کی کوئی رقم کی منتقلی ہوئی۔دنیاکے طاقتورترین ملک کاوزیراعظم اپنے احتسابی نظام کے سامنے چوہے کی طرح بے بس ہے۔اپنے آپ کو سچاثابت کرنے کے لیے کوئی سرکاری ادارہ یاحکومتی مشینری کواستعمال نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کاانتہائی مقبول اخبار “Haaretz”نے نیتن یاہوکی دھجیاں اُڑاکررکھ دی ہیں۔ تمام اخبارات نے اپنے لیڈرپربھرپورتنقیدکی ہے۔ نیتن یاہوطاقتورہونے کے باوجوداپنے نظام کے سامنے مکمل طورپربے بس ہے۔ پھڑپھڑا بھی نہیں سکتابلکہ سانس تک نہیں لے سکتا۔

خوداحتسابی کایہ نظام پوری اسلامی دنیامیں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔معذرت کے ساتھ سعودی عرب جوہمارا برادرملک ہے۔اسکاحکمران خاندان ہرقسم کے احتساب سے بالاترہے۔بالکل اسی طرح ایران کے مذہبی پیشوا مکمل طور پر پارلیمنٹ یاکسی ریاستی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں۔پورے مسلمان ممالک میں ہرطریقہ کااستحصال جاری وساری ہے۔ایمانداری اورحکومتی دیانت کی ایک روشن مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔مگرہم کسی سے بھی سیکھنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ ہمارے جذباتی رویے سے اسرائیل ہمارے ازلی دشمن یعنی ہندوستان کے نزدیک ہوچکاہے۔مگرہم اپنارویہ قومی مفادکے تحت بھی نہیںبدلناچاہتے۔تل ابیب میں وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کو”کیس3000 “کانام دیاگیاہے۔اس کے برعکس پوری اسلامی دنیامیں کسی بھی حکمران کے خلاف کچھ کہناملک دشمنی کے زمرے میں گرداناجاتاہے۔مخالفت کرنے والے کے خاندان،جسم اورروح پرہزاروں زخم لگائے جاتے ہیں۔پورے مسلمان ممالک میں مقتدرطبقے کے خلاف”کیس3000 “قائم نہیں ہوسکتا۔کسی کومرنے کاشوق ہے توکوشش کرکے دیکھ لے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔