- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
معمارانِ کراچی کا قدیم قبرستان
کراچی کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِسے 1729ء میں بھوجو مل نامی تاجر نے منوڑہ کے جزیرے پر آباد کیا تھا۔ اُس وقت یہ شہر ماسوائے چند جھگیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ یورپ سے آنے والے بعض محققین نے شہر کو گندگی سے بھرپور قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس شہر میں سرے سے کوئی شہری نظام نہیں تھا جس کی وجہ سے یہاں جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آتے تھے اور اُن سے تعفن اٹھ رہا ہوتا تھا، پھر اِس شہر پر کلہوڑوں اور تالپوروں نے بھی حکمرانی کی مگر ماسوائے چند کچے پکے مکانات اور سوائے شہری نظام کی ابتداء کے حالات تبدیل نہیں ہوئے۔
جب 1839ء میں انگریزوں نے اِس شہر پر قبضہ کیا تو کراچی کی ترقی کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومنے لگا۔ جزیرہ نُما آبادی قلعے کے دروازے سے باہر آگئی اور شہر میں پختہ عمارتوں کی تعمیر کے لئے منصوبہ بندی کی گئی مگر اُس وقت چونکہ کراچی میں راج مزدور کی کمی تھی، اِس لیے انگریز اپنے اُس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ اِسی دوران سکھر میں بھی تعمیراتی کام شروع ہوا تھا لہذا ایک انگریز افسر نے سکھر کے دورے پر راجھستان کے علاقے جیسل میل سے آئے ہوئے ایسے سنگ تراشوں کو تلاش کرلیا جوکہ بے جان پتھروں کو زبان دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اِس انگریز افسر نے سلاوٹ برادری کے محنت کشوں کو کراچی آنے کی دعوت دی اور انہیں آج کے رنچھوڑ لائن گزدرآباد کے علاقے میں آباد کیا۔
سکھر سے آئے ہوئے اِن چند خاندانوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر شہر کی ترقی کے لئے کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے اندر سندھ ہائیکورٹ، سٹی اسٹیشن، کینٹ اسٹیشن، سول اسپتال، بلدیہ عظمیٰ کی عمارت، موہٹا پیلس، لکشمی بلڈنگ، سٹی کورٹ، کیماڑی، لائٹ ہاؤس سمیت دیگر قدیم اور دیدہ زیب عمارتوں کی تعمیر شروع کردی اور شہر کے اندر راتوں رات اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو تراش کر ایسی شاہکار عمارتیں تعمیر کیں جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ کہ شہر کی قدیم عمارتوں کے اِن معماروں کے بجائے صرف انگریز انجینئرز، نقشہ ساز، سرکاری افسران کو یاد رکھا گیا اور وہ محنت کش جنہوں نے اپنے خون پسینے اور فنکارانہ صلاحیتوں سے شہر کو خوبصورتی بخشی تھی انہیں یکسر فراموش کردیا گیا۔
لوگوں کی زبان آج بھی اِن قدیم دیدہ زیب عمارتوں کو دیکھ کر انگریز سرکار اور انگریز انجینئرز کے تعریفی قصیدے کو پڑھتے ہوئے رتی برابر نہیں تھکتی لیکن دراصل صرف انگریزوں شہر کی تعمیر و ترقی کے پیچھے پوشیدہ نہیں بلکہ اِس ترقی میں سلاوٹ برادری کا بھی ہاتھ ہے، جنہوں نے شہر کی تمام قدیم شاہکار عمارتوں کے ایک ایک پتھر کو تراش کر اُس کے حُسن میں دوچند اضافہ کیا۔
شہرِ کراچی کو سجانے والے سلاوٹ برادری کے یہ لوگ آج رنچھوڑ لائن کے علاقے میں اپنے خاندان کے ہمراہ مقیم ہیں اور 3 برس قبل آخری سنگ تراش انور علی گزدر کے انتقال کے بعد اب کوئی بھی اِس فن سے واقف نہیں۔ ماہر سنگ تراشوں کی اولادیں روزگار کے لئے دوسرے شعبوں سے منسلک ہیں، اُن کے اذہان میں اپنے بزرگوں کا فن اور کارنامے محفوظ ہیں مگر اب کوئی اِس کام کی باریک بینی کے سبب پتھر تراشنے کے فن سے آشنا نہیں جس کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ماضی میں پتھروں کو تراشنے کا فن دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔
گوکہ سنگ تراشی کا فن سلاوٹ برادری میں مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے لیکن ماضی کے ماہر سنگ تراشوں نے اپنے فن کو ہمیشہ زندہ اور تابندہ رکھنے کے لئے حیات میں ہی اپنے لئے ایسے کتبے تراشے جس میں نہ صرف اُن کا فن نمایاں نظر آتا ہے بلکہ شہر کی شاہکار عمارتیں جن کی تعمیر میں اُن افراد نے حصہ لیا، وہ بھی اِن کتبوں پر نمایاں ہیں۔
مسلم مارواڑی سلاوٹ جماعت کو 1840ء میں 8 ایکڑ کے رقبے پر دیئے گئے قبرستان میں آملو نامی کاریگر کی قبر پر میری ویدر ٹاور کا ایک ماڈل نصب ہے۔ اِس ماڈل میری ویدر ٹاور اور اصل میری ویدر ٹاور میں رتی برابر کوئی فرق نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میری ویدر ٹاور پر آج بھی گھڑیال نصب ہے جبکہ قبر پر لگے ٹاور کے چھوٹے سے ماڈل پر لگی گھڑی غائب ہوچکی ہے۔
فوٹو: بلاگر
اِس قبرستان میں سندھ ہائیکورٹ کی دیدہ زیب عمارت کی تعمیر میں اپنا خون پسینہ بہانے والے سنگ تراش کی قبر پر اُسی کے ہاتھوں تراشیدہ کتبہ نصب ہے۔ جس پر سندھ ہائیکورٹ کی سیڑھیاں اور مرکزی دروازہ نمایاں ہیں جبکہ قبرستان میں ایسی لاتعداد قبریں موجود ہیں جن پر راجھستان جیسل میل کے محلات، تاج محل اور شہر کراچی کی دیگر تاریخی عمارتوں کے کتبے نصب ہیں۔
فوٹو: بلاگر
اِس قبرستان میں جہاں 10 ہزار سے زائد قبور موجود ہیں، وہیں اِن میں کوئٹہ کی سرنگوں کی تعمیر میں حصہ لینے والے باپ اور بیٹوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ آج بھی سلاوٹ برادری ایک بڑی تعداد میں قبرستان کے قرب و جوار میں رہائش پذیر ہے۔ قدیم قبرستان جو کہ 3 حصوں پر مشتمل ہے، اُس کے ایک حصے میں کراچی کے پہلے میئر ہاشم گزدر اور اُن کے خاندان کے علاوہ ماضی کے معروف سیاستدان بوستان علی ہوتی کے خاندان سمیت اہم اور معتبر شخصیات بھی یہیں آسودہ خاک ہیں۔
فوٹو: بلاگر
قبرستان کی تاریخ کے حوالے سے جب ہم نے قبرستان کے سابق چئیرمین ضیاءالدین سے بات چیت کی تو اُن کا کہنا یہ تھا کہ اِس قبرستان میں 1840ء سے بہت پہلے کی قبریں بھی موجود ہیں مگر اِس کے باوجود محکمہ آثارِ قدیمہ نے اِس قدیم تاریخی قبرستان کی جانب ذرا سی بھی توجہ نہیں دی، جس کے باعث کراچی کی تعمیر کرنے والوں کا یہ قدیم ورثہ تباہ ہورہا ہے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ یہ قبرستان مکلی اور چوکنڈی قبرستان کا ہم عصر ہے لہذا اِس کی ضرورت ہے تاکہ کراچی کے معماروں کی تاریخ کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔