بہترین ڈرامے کی تخلیق کیلئے نئے ٹیلنٹ کی تربیت کی جائے

’’ایکسپریس اِنک‘‘ کے تحت ’’عصر ِحاضر اور ڈرامہ نگاری‘‘ کے موضوع پر کراچی میں منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

’’ایکسپریس اِنک‘‘ کے تحت ’’عصر ِحاضر اور ڈرامہ نگاری‘‘ کے موضوع پر کراچی میں منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ نے ’’ایکسپریس انک‘‘ کے نام سے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد ملک بھر میں ڈرامہ نگاری کے حوالے سے موجود ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

اس مہم آغاز ملتان سے ہوا ، بعدازاں ملک کے دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے اس سلسلے کا آخری سیمینار گزشتہ دنوں کراچی میں منعقد کیاگیا جس میں ڈرامہ نگاروں، ادباء، شعراء ، فنکاروں اور ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ ’’عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اس سیمینار کیلئے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے خصوصی تعاون کیا۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

اقبال لطیف (پروڈیوسر و تخلیقار)

آج کل ڈرامہ، فلم کی تکنیک پر بنایا جارہا ہے حالانکہ ڈرامہ کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ نئے لکھنے والوںکوڈرامہ کی تکنیک اپنانی چاہیے کیونکہ فلم پر بننے والے ڈرامے کو ڈرامہ نہیں کہا جاسکتا۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت پچاس منٹ کا پروگرام پیش کیا جارہا ہے جس میں بارہ مصالحہ کی چاٹ ہوتی ہے جبکہ ڈرامہ کا آدھا حصہ ڈائریکٹر کا ہوتا ہے۔ پہلے ڈراموں میں ادائیگی، پرفارمنس اور کیمرہ ریہرسل ہوتی تھی مگر اب عجلت میں ہی سین عکس بند کرلیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ماضی میں وقت زیادہ اور پیسے کم ہوتے تھے جبکہ آج وقت کم اور مقابلہ سخت ہے تو فنکار جتنا وقت دے پاتے ہیں اور اس میں جو ڈرامہ بنتا ہے اسے قبول کرنا آپ کی اور ہماری مجبوری ہے۔ایکسپریس میڈیا گروپ نے ڈرامے کے حوالے سے اس نشست کا اہتمام کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ڈرامہ میں مارکیٹنگ کا زیادہ عمل دخل ہوگا تو تخلیق کا عمل رک جائے گا۔ اگر ہم مارکیٹنگ کے ہاتھوں مجبور ہوگئے توپھر ہمیں وہ ڈرامہ کبھی نہیں ملے گا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب وہ ڈرامہ چلتا تھا تو ٹریفک رک جایا کرتی تھی، سانس تھم جاتی تھیں اور گلیاں ویران ہوجاتی تھیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک ادارے کی اجارہ داری ہے حالانکہ اس وقت تمام صوبوں کے درمیان مقابلے کی فضا تھی لیکن اب مقابلے کی فضا نہیں بلکہ سمجھوتے کی فضا ہے،بہت سے معیارات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ہم ناامید نہیں ہیں کیونکہ رائٹرزآج بھی موجود ہیں ، صرف نئے لکھنے والوں کو اور ہمارے بعد کے لکھنے والوں کوایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح حمید کاشمیری، اشفاق احمد، سیما غزل، حسینہ معین و دیگر نے پہلے ڈرامے کو سمجھا، مطالعہ کیا اور مشاہدے کے ساتھ ڈرامہ لکھا اسی طرح وہ بھی محنت کریں کیونکہ جب ڈرامے کے پیچھے مطالعہ اور مشاہدہ ہوگا تو وہ پھر سے اپنی پرانی ڈگر پر آجائے گا کہ دیکھنے والے اداکار کے ساتھ روئیں گے اور ہنسیں گے۔

سیما غزل (معروف ڈرامہ نگار )

عصر حاضر میں ڈرامہ نگار، کردار کو نہیںجانتا مگر اس کے بارے میں لکھ دیتا ہے۔ مجھے ایک ہی کہانی چھ ڈراموں میں نظر آتی ہے کیونکہ ڈرامہ نگاروں کا مطالعہ محدود ہے۔ کسی بھی کردار کو پیدا کرنے میں نفسیات کا عمل دخل ہوتا ہے جس کے لیے مطالعہ انتہائی ضروری ہے جبکہ بغیر پڑھے آپ کردار بنا ہی نہیں سکتے۔یہ بات غلط ہے کہ مارکیٹنگ والے ڈرامہ لکھواتے ہیں۔ میں نے ایک سوپ کیا تو اس میں مارکیٹنگ کی طرف سے صرف اتنا کہا گیا کہ برانڈ کو واضح طور پر دکھا دیں۔لکھاری کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے لکھے ہوئے ڈرامے سے دیکھنے والوں کی نفسیات تبدیل ہوتی ہیں۔میرے نزدیک عصر حاضر کے ڈرامہ نگاروںکو مطالعے کی ضرورت ہے۔

زین احمد (ہدایت کار و استاد نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس)

جب نجی چینلز کا سلسلہ شروع ہوا تو سب پْرجوش تھے کیونکہ اس وقت مختلف اقسام کی پروگرامنگ ہورہی تھی۔ ہارر، کامیڈی اور سیریل سمیت ہر طرح کا کام ہورہا تھا مگر آہستہ آہستہ سب ختم ہوتے گئے اور اب ایک ہی اسٹائل کا کام ہورہا ہے۔ شاید اب ہم رسک لینے سے ڈرتے ہیں یا پھر اس میں مارکیٹنگ کا عمل دخل ہے لیکن ان عناصر کے باعث جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں وہ آگے نہیں آتے جس کی وجہ سے نئے آئیڈیاز آنا بند ہوگئے۔ موضوع میں یکسانیت کے باعث ڈرامہ زوال پذیر کی جانب بڑھ رہا ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے ٹی وی کا زوال نہیں آئے گا لیکن اس کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ یکسانیت نہ ہو۔ ہر سیریل ہٹ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہر سیریل کو اشتہات ملیں گے لہٰذا ٹی وی چینلوں کو چاہیے کہ وہ بیس، پچیس منٹ کا دورانیہ کمرشل فری چھوڑ دیں تاکہ لوگ اس میں تجربات کرسکیں۔ شاید ایسا کرنے سے کوئی نئی تخلیق ہوجائے، نئے آئیڈیاز سامنے آئیںاورایسا ڈرامہ بنے جو مقبول ہوجائے جس سے لکھاریوں کا حوصلہ بڑھے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ بہتر ڈرامے کی تخلیق کیلئے نئے ٹیلنٹ کی تربیت کی جائے ۔

علی معین ( ڈرامہ نگار)

ماضی میں ڈرامہ نگار آزاد تھا اور اپنی مرضی کے مطابق ڈرامہ لکھتا تھا مگر عصر حاضر میں ایسا نہیں ہے۔ یقین سے کہتا ہوں کہ اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور خواجہ معین الدین چشتی جیسے مقبول ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے اگر آج ٹی وی چینلز کو بھیجے جائیں تو وہ انہیں بھی رجیکٹ کر دیں گے۔ افسوس ہے کہ پاکستان میں ڈرامے کو ادب کی صنف کے طور پر قبول ہی نہیں کیا گیا۔ ڈرامہ نگار آزاد نہیں ہیں۔ اگر تخلیقی آزادی چاہیے تو ناول لکھیں کیونکہ ڈرامہ مارکیٹ کے اصولوں پر چلتا ہے ہمیں شکایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جس کی ریٹنگ آتی ہے وہی ڈرامہ بکتا ہے۔ ڈرامہ نگار کے پاس تخلیقی آزادی آرہی ہے کیونکہ ڈرامے کو کہانی کی ضرورت پڑگئی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ڈرامے میں ایک ہی جیسی کہانی دکھائی جارہی ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے مگر اب ہمیں بعض ڈراموں میں مختلف کہانیاں بھی نظر آرہی ہیں۔

ظفر معراج ( ایوارڈ یافتہ ڈرامہ نگار)

جب سٹار پلس کے ڈراموں کی یلغار ہوئی تو وہ ہمارے ڈرامے کے زوال کا وقت تھا۔ اس کے بعد ہمارے ڈرامہ نگاروں نے ان ڈراموں کا مقابلہ کیا اور اپنا خون پسینہ ایک کرکے سٹار پلس کے ڈراموں کو مار بھگایا لیکن ان کے کچھ عناصر یہاں رہ گئے، جیسے کہ ساس بہو کے جھگڑے والا ڈرامہ ۔ ڈرامے کو مصالحے لگا کر پیش کیا جارہا ہے کیونکہ اس میں ذائقہ بھی تو پیدا کرنا ہے۔ اس طرح ریٹنگ آتی ہے اور لوگ بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ مسئلہ کہانی یا پروڈکشن کا نہیں بلکہ وقت کا ہے اور اب عجلت میں ڈرامے بنائے جارہے ہیں۔ ڈرامہ کی اصلاح کے لیے ڈرامہ نگار، ہدایت کار اور پروڈیوسر کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

احمد شاہ ( صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی)

آج کل ڈرامے ڈیمانڈ پر لکھے جاتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا تخلیقار سمجھتا ہے۔ ڈرامہ صرف خواتین دیکھتی ہیں ،مرد نہیں دیکھتے۔عورتوں کو بیووقف تصور کیا جاتا ہے کہ ان کے لیے ساس بہو، ایکسٹرامیریٹل افیئر جیسی کہانیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ معاشرے میں جو خرابی ہے وہ دکھانی چاہیے تاکہ لوگ حقیقت سے آشنا ہوسکیں۔دنیا کے جتنے بڑے ناول نگار ہیں انہوں نے اپنے کنبہ، گاؤں یا شہر کی کہانی لکھ کر نوبیل انعام جیتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے پاس کہانی نہیں ہے تو یہ اس خطے کے لکھنے والوں پر بہت بڑا بہتان ہوگا کیونکہ یہاں بے شمار خوبصورت کہانیاں موجود ہیں۔ عہد حاضر کے ڈرامہ میں مارکیٹنگ کا عمل دخل ہونے کے باوجود ڈرامہ ترقی کررہا ہے، پہلے نہ پیسے تھے اور نہ ہی عزت تاہم اب اگر کسی فرد کو کام آتا ہو تو اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شروع میں دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی چیز بڑھتی ہے تو اس کا معیار کم ہوجاتا ہے اسی طرح ہمارے ڈراموں کے ساتھ بھی ہورہا ہے، پرانے لکھاریوں کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ وہ پرانے ہوگئے ہیں اور وہ معاشرے کی جدت کو تحریر نہ کرپائیں گے جو مضحکہ خیز بات ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کے نئے آنے والے لوگوں میں مطالعہ کی کافی کمی ہے حالانکہ لکھاری کے لیے خود پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ لوگ سستی شہرت چاہتے ہیں لیکن سیکھنا نہیں چاہتے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ شہرت، کسی کو بڑا لکھاری نہیں بناتی اور نہ ہی یہ مستند ہے۔

ابو راشد (ڈرامہ نگار)

جب کوئی لکھاری اپنا ڈرامہ لے کر آتا ہے تواس نے انگریزی، روسی یا دیگر زبان کا ادب تو دور کی بات اپنی زبان کا ادب بھی نہیں پڑھا ہوتا ۔ لکھاری کے پاس دنیا کے تمام تر ادب کاذخیرہ ہونا چاہیے کیونکہ جب تک وہ پڑھے گا نہیں، لکھے گا کیسے؟ ڈرامہ نگاری میں تخلیقی دیانتداری کہیں کھوتی جارہی ہے۔ نئے لکھاری مزاح لکھنا چاہتے ہیں لیکن انہیں مزاح کی اصناف کا علم نہیں ہے۔کیا ڈرامہ اتنی آسان چیز ہے کہ کوئی بھی اسے لکھ سکتا ہے؟ چینلوں کے رائٹرز کی ایک ٹیم ہے ،جب ان کے پاس کوئی ڈرامہ جاتا ہے تو وہ اس پر اپنی رائے دیتے ہیں، پھر یا تو وہ ڈرامہ مسترد کردیا جاتا ہے یا اعتراضات اٹھا کر اسے تصحیح کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ آج پروڈکشن ہاؤسز کو رائٹر نہیں کمپائلر چاہیے جو کہ چینل کے ہیڈ، مارکیٹنگ ہیڈ، پروڈکشن ہیڈاور ہدایت کار کی باتین سن کر ڈرامہ مرتب کرسکے۔ جب چھ لوگوں کی رائے لیکر لکھا جائے تو پھر اس میں آپ کی سوچ اور رائے نہیں رہتی۔ریٹنگ آجائے تو خوب داد ملتی ہے لیکن اگر نہ آئے تو کہتے ہیں کہ اسے لکھنا ہی نہیں آتا۔ ڈرامہ، رائٹر کا میڈیم ہے لیکن کمرشل مارکیٹ نے اسے ڈائریکٹر اور اداکاروں کا میڈیم بنا دیا ہے جبکہ رائٹرگم ہوگیا ہے۔ماضی کے ڈراموں کی مثال دی جاتی ہے، اس میں اہم بات یہ ہے کہ جس ڈرامہ کو شاہکار کہا جاتا ہے وہ ڈرامہ لکھوایا نہیں گیا تھا بلکہ ڈرامہ نگار نے اسے خود تخلیق کیا تھا۔ اس لیے اگر اب شاہکار ڈرامے بنانے ہیں تو رائٹر کو تخلیقی آزادی دینا ہوگی۔

اسما نبیل ( ڈرامہ و فلم نگار)

نئے لکھاری کو بہت مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ پی ٹی وی کے باہر لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ میں نے چار برس محنت کی اور پھر میرے ایک سکرپٹ کو پذیرائی ملی۔ میری کہانی پر بے شمار اعتراضات اٹھائے گئے مگر میں نے فراخدلی سے ان حالات کا سامنا کیا  مگر انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ لکھتے رہنے چاہیے، ان کی تحریر کو کبھی نہ کبھی موقع ضرور ملے گا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تخلیق کا مرحلہ بھی جدوجہد کا شکار ہے۔ بطور رائٹر میرے لیے ریٹنگ نہیں بلکہ میری کہانی کی اہمیت زیادہ ہے۔ میں ریٹنگ کے چکر میں رشتوں کا تقدس پامال نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پہلے ڈرامے کو لوگوں نے سراہا۔

نوید جعفری (ڈرامہ نگار)

مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم اپنے کردار کو صحیح طریقے سے نہ تو بْن پائیں گے اور نہ ہی اسے لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں گے،اس طرح اس کا وہ اثر نہیں ہوگا جو ہم چاہتے ہیں۔آج کل بھیڑ چال ہے اور عجیب و غریب موضوعات پر ڈرامہ بنایا جارہا ہے، ڈرامہ کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے اور اس میں روانی نہیں رہتی۔ بہتر ڈرامے کے لیے ہمیں اپنی روایات کو نہیںبھولنا چاہیے۔

ثنا شاہنواز (ڈرامہ پروڈیوسر)

اکثر رائٹرز کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کاسکرپٹ قبول نہیں کیا گیا۔ اپنی چیز تو ہر کسی کو اچھی لگتی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ پروڈیوسر یا چینل ہیڈ کو بھی متاثر کرے۔ لکھاری کو مکمل آزادی ملنی چاہیے کیونکہ تب ہی شاہکار نکلتے ہیں۔ پروڈکشن میں بزنس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ ایسا ڈرامہ تخلیق کروں جو معنی خیز ہو۔ میرے پاس بہت سی سکرپٹ آتی ہیں جو ساس بہو، بہنوں کی چپقلش پر مبنی ہوتی ہیں لیکن میری ترجیح ہے کہ معاشرے کی حقیقی کہانیوں کو سامنے لایا جائے کیونکہ اب ڈرامے سے یکسانیت کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔

الماس خالد (نوجوان مصنف )

ہمارے معاشرے کی عورت کو اتنا رْلایا کیوں جاتا ہے۔ میرے ڈرامہ کی عورت خود مختار ہے لیکن کوئی کہانی لینے کو آمادہ نہیں ہوتا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کی عورت کو خود مختار دکھایا جائے۔

حسن عباس ( سینئر نیوز ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس کراچی)

میں پہلے ڈرامہ دیکھتاتھا مگر اب دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔ مجھے یہاں ہونے والی بہت ساری باتوں سے اختلاف ہوسکتا ہے کیونکہ میرا اپنا نظریہ ہے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ پی ٹی وی مجبوری تھا کیونکہ اس وقت سوائے اس کے لوگوں کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ اس وقت جو کچھ لکھا جاتا تھا اس پر بہت توجہ دی جاتی تھی مگر اب کمرشل ازم کا دور ہے جس کے تقاضے مختلف ہیں ۔ دنیا میں جب جدت آتی ہے تو اس کے حساب سے ڈھلنا ہوتا ہے مگر ہم اس میں تھوڑے کمزور ہیں۔قلم میں بہت طاقت ہوتی ہے، کہانی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ دیکھنے والے پر اپنا سحر طاری کردے۔

راحنیہ ارشاد (کانٹینٹ  ہیڈ ایکسپریس انٹرٹین منٹ)

ڈرامہ نگار اکثر شکایت کرتے ہیں کہ چینل ان کی کہانیاں نہیں لیتا حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ بیشتر ڈرامہ نگار جو کہانی لاتے ہیں وہ یا تو پہلے سے ہی ہمارے پاس موجود ہوتی ہے یا اس پر کام ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کسی کی کہانی منتخب نہیں ہوئی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کہانی بری ہے بلکہ اس وقت چینل کو اس کہانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔