میری نااہلی کا فیصلہ ہوچکا تھا صرف وجہ تلاش کی جارہی تھی، نوازشریف

ویب ڈیسک  پير 7 اگست 2017

 اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ کیا ملک میں کوئی ایسی عدالت ہے جو پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا احتساب کرے، کیا ایسے جج موجود ہیں جو اس کا احتساب کریں اور سزا دیں۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ میرے مقاصد اب ذاتی نہیں ملک و قوم کے لیے ہیں، وزارت عظمیٰ سے بالاتر ہو کر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، ہم 70 سال میں پاکستان کی سمت کا تعین نہیں کر سکے، 70 سال میں ایک بھی وزیراعظم کی مدت پوری نہیں ہو سکی تاہم میڈیا، سول سوسائٹی، سیاستدانوں کو مل کر نہ صرف سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے بلکہ ملک کی سمت کا تعین بھی کرنا ہوگا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : اداروں سے ٹکراؤ کا حامی نہیں لیکن سازش سے پردہ اٹھاؤں گا

نواز شریف نے کہا کہ اقتدار میں 4 سال کس طرح گزارے میں ہی جانتا ہوں جب کہ ایک ادارہ دوسرے کا احترام نہیں کرے گا تو پاکستان آگے نہیں چلے گا، عوام کی حکمرانی اور عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کروڑوں لوگ ووٹ دیں اور بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر 5 جج نااہل کر دیں یہ مناسب نہیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ کیا ملک میں کوئی ایسی عدالت ہے جو پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا احتساب کرے، کیا ایسے جج موجود ہیں جو اس کا احتساب کریں اور سزا دیں، جنہوں نے ملک کو دولخت کیا ان کا احتساب کون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی تحقیقات سے بھاگ رہے ہیں، بڑے لوگوں نے مشورہ دیا کہ مجھے جے آئی ٹی کے سامنے نہیں جاناچاہیے تھا تاہم میں نے اس لیے قانون کی پاسداری کی کیونکہ میں حالات کی خرابی نہیں بلکہ تصیح چاہتا ہوں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : سب سمجھتا ہوں اور وقت آنے پر بہت کچھ بولوں گا

نواز شریف نے کہا کہ میں قومی خزانے کی امانت میں خیانت نہیں کی ،میرے لئے یہ کنٹری بیوشن بہت بڑی اور قابل فخر ہے تاہم اب روزمرہ کے تماشے کو ختم ہوناچاہیے۔ میں عدلیہ پر دباؤ نہیں ڈال رہا، صرف گھر جارہا ہوں، جی ٹی روڈ کئی دنوں سے نہیں دیکھی اس لیے وہاں سے جانا چاہ رہا ہوں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میرا سوال نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کاسوال ہے، نیب کا قانون مشرف نے سیاستدانوں باالخصوص میرے لیے بنایا، ہم اس قانون کو ختم کرکے نیاقانون لانا چاہتے تھے تاہم ہماری توجہ ہٹ گئی ہم نہیں لاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز نے ہمیں گاڈ فادر اورسسیلین مافیا کہا، کیا سسیلین مافیا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتا ہے جب کہ ایک جج نے پروموشن کیس میں کہا وزیراعظم کے لیے اڈیالہ جیل میں بہت جگہ ہے تاہم وزیراعظم کے لیے کیا یہ کہنا مناسب ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ پروموشن کیس کی فائل بھی میرے دفاتر میں نہیں جب کہ فیصلے سے لگتا ہے میری نااہلی کا فیصلہ ہوچکا تھا وجہ تلاش کی جارہی تھی، کچھ نہیں ملاتو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے فارغ کردیاگیا۔

صحافی کے سوال پر کہ کیا آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کریں گے، نواز شریف نے کہا کہ جس فیصلے کی بنیاد ہی ٹھیک نہ ہو تو اگلا فیصلہ کیسا ہوگا، کل خواجہ حارث سے میر ی ملاقات ہے جس میں ریویو پٹیشن پر بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میں بھاگنے والا نہیں حالات کاسامنا کروں گا جب کہ میں نے نہیں کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے تاہم میڈیا نے خود ہی اخذ کیاہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگرمیں نے تنخواہ نہیں لی توظاہر کرنے کی کیا ”تک“ بنتی تھی، ایک چیز میرے جیب میں ہی نہیں آئی تو اسے ظاہر کیسے کرتا،میرا ذہن اس منطق کو نہیں مانتا، مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت نہیں جب کہ مجھے بحال کرنے کے لیے نہیں ناانصافی کے لئے کھڑا ہوناہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل سے متعلق جج کے ریمارکس پر میں نے چیف جسٹس کو خط لکھا، اس کاجواب آنا چاہئے تھا لیکن نہیں آیا، ہر بڑی دولت کے پیچھے جرم والے ریمارکس افسوسناک ہیں، اگر مجھے نکالنا تھا تو کسی وجہ پر نکالتے۔

نواز شریف نے کہا کہ نیب کو 6 ہفتے کیوں دیے جارہے ہیں، کیا اس لیے کہ جے آئی ٹی ادھر ادھر سے کچھ تلاش کرے اوراسے بھی شامل کرلیا جائے جب کہ جج کو نیب کے اوپر بیٹھا دیاگیا، جب ہم اپیل کریں گے تو اپیل والے پہلے نگرانی کررہے ہوں گے جب کہ میرے اباؤ اجداد کا احتساب کرنے والے شرطیں کیوں لگارہے ہیں تاہم ہمیں اس کی تہہ میں جاناچاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔