مقبرے بنانے والے کاریگر

ظہیر اختر بیدری  منگل 8 اگست 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

روایتی سیاست دانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو وہ عوام کو بہلانے کے لیے جھوٹے وعدے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے ایسے ایسے نسخے عوام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ دھوکے کھانے کے عادی عوام بار بار ان شعبدہ بازوں کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔

انتخابات کا موسم سر پر کھڑا ہے، ہر سیاست دان جھوٹے وعدوں کی پوٹلیاں تیارکر رہا ہے اور یہ بہروپیے انتخابی مہم کے دوران جھوٹے وعدوں کی یہ پوٹلیاں سروں پر اٹھائے عوام کی خدمت میں حاضر ہوںگے اور انتہائی ’’خلوص‘‘کے یہ پوٹلیاں عوام کے قدموں میں ڈال کر اس کے بدلے عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کریںگے، یہ سلسلہ 70 سالوں سے جاری ہے اور اگر عوام میں شعور پیدا نہ ہوا تو یہ سلسلہ 70 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہے گا۔ سیاست دانوں کی نسبتاً قدیم کھیپ کے اکابرین یا توگزر گئے ہیں یا معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس قدیم کھیپ کے بعد جو کھیپ آگے آئی ہے وہ بھی اب 60-70 کے پیٹھے میں ہے اور ان بازی گروں کا عمومی تعلق اس قدیم کھیپ سے ہے جن کے اکابرین یا تو گزر چکے ہیں یا گزرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

اس سیاسی اشرافیہ کی سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ اس نے عوام کی زندگی بدلنے کے وعدوں پر ساری زندگی گزار لی لیکن جمہوریت کے حقیقی کرداروں یعنی عوام کو سیاسی میدان میں آگے آنے نہ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بے چارے عوام پچھلے 70 سالوں سے صرف ووٹر بنے ہوئے ہیں لیڈر نہ بن سکے ہیں۔

ابھی چند دن پہلے اخبار میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ ہمارے سیاست دانوں نے ایک غلطی یہ کی کہ ’’نوجوانوں کو سیاست میں آگے آنے کا موقع نہ دیا‘‘ جزوی طور پر تو یہ خبر درست ہے لیکن اس خبر میں یہ تصحیح ضروری ہے کہ عوام کو یا عوام کے نوجوانوں کو سیاست میں آگے آنے نہ دیا گیا اور یہ غلطی نہیں بلکہ ایک گہری سازش ہے۔ کیونکہ خاندانی حکمرانوں کی بادشاہی میں ایلیٹ کلاس اپنے نوجوان بیٹوں، بیٹیوں، بھانجوں بھتیجوں حتیٰ کہ دامادوں کی نوجوان کھیپ کو نہ صرف آگے لارہے ہیں بلکہ ان کمسنوں، ناتجربہ کاروں اور سیاست کی اے بی سی سے ناواقف شہزادوں، شہزادیوں کو فرنٹ پر کھیلنے کے لیے آگے بڑھارہے ہیں اور شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا بھولے عوام ان شہزادوں کے وارے نیارے ہورہے ہیں۔

ہمارے معاشرتی اور سیاسی جسم میں 70 سالوں سے جن بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں وہ نہ اشرافیہ کے جھوٹے وعدوں سے دور ہوسکتے ہیں نہ ٹونے ٹوٹکوں سے نہ جھاڑ پھونک سے نہ عام دوائیوں سے ان بیماری کو ختم کرنے کے لیے ایک سخت سرجری کی ضرورت ہے اور بد قسمتی سے ایسی سرجری کرنے والا کوئی سرجن سیاسی میدان میں نظر نہیں آتا۔ ہمارے عمران خان صاحب نے نئے پاکستان کا ایک دلچسپ نعرہ لگایا ہے اور دعویدار ہیں کہ وہ پرانے پاکستان کو نئے پاکستان سے بدل دیں گے۔

بلاشبہ یہ نعرہ اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے لیکن نیا پاکستان نئے لوگ ہی بناسکتے ہیں پرانے پاپی نیا پاکستان ہرگز نہیں بناسکتے۔ بد قسمتی سے عمران خان کے دائیں بائیں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ ماضی کے وہ کاریگر ہیں جو پاکستان کی اشرافیائی حکومتوں کا حصہ بنے رہے ہیں۔

جب انھیں اپنے گھونسلوں میں ماس نظر نہ آیا تو وہ اس نئے گھونسلے میں آبیٹھے ہیں جہاں ماس کی امید ہے اور اب بھی ان پرانے پاپیوں کی گھونسلا بدل مہم جاری ہے۔ بلاشبہ عمران خان کا تعلق روایتی سیاست دانوں سے بغض ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے دل میں عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا خیال ہو لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ وہ ان پرانے پاپیوں کے ساتھ اگر عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کی سوچ رہے ہیں تو ہم اسے ’’خیال است و محال است و جنوں‘‘ کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ مغلوں کے دور میں شاندار عمارتیں بنانے والے ایسے کاریگر اور راج مستری تھے کہ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں نہ صرف عجوبہ ہیں بلکہ انھیں دنیا کے چند معروف عجائبات میں شامل ہونے کے فخر بھی حاصل ہے۔

تاج محل بلاشبہ ایک عجوبہ ہے لیکن بنیادی طور پر وہ ایک ملکہ کا مقبرہ ہے۔ لاہور کا قلعہ ایک حیرت انگیز تعمیر ہے لیکن یہ بادشاہوں کی رہائش گاہ  رہا ہے اس دور کے بے مثال کاریگر مقبرے اور قلعے تو لاجواب بناتے رہے لیکن ان میں سے کوئی راج مستری نہ کویت برج الخلیفہ بناسکا نہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ حتیٰ کہ حبیب بینک پلازہ تک نہ بناسکا۔ اس لیے ان کی مہارت کا دائرہ کار مقبروں، قلعوں تک محدود تھا۔ یہ پندرہویں صدی ہے نہ سولہویں، اکیسویں صدی کی ضرورتیں اور مہارتیں بالکل الگ ہیں اور بد قسمتی سے عمران خان مقبروں اور قلعوں کے کاریگروں سے کویت کے برج الخلیفہ اور امریکا کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ بنانا چاہتے ہیں اسے ہم عمران خان کی نیک خواہش تو کہہ سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔

نئے پاکستان کی تعمیر عوام ہی کرسکتے ہیں یہ سجادہ نشینوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا کام نہیں اس کے لیے ایک سخت انقلاب کی ضرورت ہے جس میں سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے لیکن عمران خان کے منشور میں زرعی اصلاحات کا سرے سے نام نہیں، اس کے بعد ہمارے شاہی انتخابی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ نچلے طبقے کے اہل ایماندار اور مخلص عوامی نمایندے انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ ان تین بنیادی تبدیلیوں کے بغیر نئے پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جب کہ ہم ابھی تک ماڈرن مغلیہ دور ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عمران خان اگر پاناما کیس سے کامیابی کے ساتھ نکل آئیں تو پھر نئے پاکستان کے لیے نئے لوگوں، نئے خیالات کے ساتھ انھیں آگے بڑھنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔