پانچ عادتیں

جاوید چوہدری  منگل 8 اگست 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

’’پانی نرم ہوتا ہے اور پتھر سخت‘ دونوں کو اپنی اپنی خصوصیت پر فخر ہے اور یہ فخر ازل سے دونوں کے درمیان جنگ کا باعث ہے‘‘ استاد رکا اور اس نے آبشار کی دھار پر نظریں گاڑھ دیں‘ شاگرد کی نگاہیں بھی آبشار کی طرف مڑ گئیں‘ پہاڑ کی چوٹی پر درختوں کی سبز قطار تھی‘ اس قطار کے درمیان ایک پچاس‘ ساٹھ فٹ چوڑی چٹان تھی‘ چٹان کے درمیان میں ڈھلوان تھی اور اس ڈھلوان سے ہزاروں‘ لاکھوں لیٹر پانی دھماکے سے نیچے گر رہا تھا‘ وہ محض پانی نہیں تھا۔

یہ برف کی ایسی چادر دکھائی دیتا تھا جو سبز درختوں‘ جھاڑیوں اور بیلوں کے درمیان لٹک رہی تھی‘ دونوں پانی کی چنگاڑ بھی سن رہے تھے اور پانی کی دھار کو پتھروں سے ٹکراتے اور جھاگ اڑاتے ہوئے بھی دیکھ رہے تھے۔ شاگرد نے اپنی نگاہیں آبشار سے ہٹائیں اور استاد کی طرف دیکھنے لگا‘ استاد سگار پینے کا شوقین تھا‘ وہ سگار کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا اور آبشار کو اوپر سے اترتے دیکھ رہا تھا۔ شاگرد استاد کی محویت پر حیران تھا‘ وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا نرمی اور سختی کی اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ لیکن استاد کے احترام نے اس کی زبان پکڑ لی اور وہ کبھی استاد کی سنجیدگی میں ڈوبے چہرے کی طرف دیکھتا اور کبھی آبشار پر نظریں گاڑھ دیتا۔

یہ شاگرد ایفل ٹاور کا معمارگستوف ایفل تھا اوراس کا استاد تاریخ کے گم شدہ صفحات کا کوئی گم نام سپاہی۔ گستوف ایفل بچپن میں ایک عام‘ معمولی اور سطحی ذہانت کا لڑکا تھا‘اس کی زندگی بے مقصدیت کا شکار تھی۔ ہم سب کی زندگی میں نالائقی کا ایک دوربھی آتا ہے‘ یہ دور عموماً شباب کے ابتدائی دنوں سے شروع ہوتا ہے اور پچیس سال کی عمر تک جاری رہتا ہے‘ اس دور میں ہر انسان کی سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں‘ وہ سلو (سست) ہو جاتا ہے‘ اس کا دھیان کام میں نہیں لگتا اور وہ زندگی کی دوڑ سے نکل کر میدان کے کنارے لیٹنے کوفوقیت دیتا ہے۔

یہ میکنگ یا بریکنگ کا دور ہوتا ہے‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ اسی دور میں آگے بڑھنے کا عزم کرتے ہیں اور دنیا کے نوے فیصد ناکام لوگ بھی اسی زمانے کی پیداوار ہوتے ہیں۔ آپ آج سے اپنی زندگی کے ناکام دوستوں کی فہرست بنائیں اور بعدازاں تمام ناکام دوستوں کی ناکامیوں کی وجوہات پر غورکریں توآپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ان سب کی ناکامیوں کی جڑیں ان کے سولہ سے پچیس سال کے دورمیں پیوست ہیں۔ دنیا کے پچانوے فیصد اسموکر اور نوے فیصدشرابی‘ جواریے‘ چور‘ ڈکیت‘ غنڈے‘ جھوٹے‘ دھوکے باز‘ فراڈیے‘ سست‘ منفی ذہنیت کے شکارلوگ اور دہشت گرد اپنی سرگرمیوں کا آغاز اسی عمرمیں کرتے ہیں اورنیکی‘ اچھائی‘ بھلائی‘ کامیابی اور ترقی کا فیصلہ بھی عموماً اسی عمر میں کیا جاتا ہے ۔ ہم لوگ عادتیں چھ ماہ کی عمر میں اپنانا شروع کرتے ہیں لیکن ان عادتوں کی فصل سولہ سے پچیس سال کی عمرمیں پکتی ہے ۔

قدرت ایک خود کار نظام کے تحت انسان کو زندگی میں دو مرتبہ اپنی ان عادتوں کو ’’ری وائز‘‘ کرنے‘ انھیں چھوڑنے یا جاری رکھنے اور ان کے نتائج کا تخمینہ لگانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ قدرت انسان کو پہلا موقع سولہ سے پچیس سال کی عمر میں دیتی ہے اور دوسرا موقع چالیس سے پینتالیس برس کے دوران دیا جاتا ہے چنانچہ نیکی اور برائی دونوں کی تبلیغ کے بہترین زمانے زندگی کے یہ دو پیریڈ ہوتے ہیں۔

انسان اگرپہلے دور میں برے لوگوں کے سرکل میں آ جائے یا وہ دوسرے دور میں برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگے تو اس کے خراب ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اور اسی طرح اگر وہ پہلے یا دوسرے پیریڈ میں اچھے‘ کامیاب اور ذہین لوگوں کی صحبت میں آ جائے تو اس کاراستہ سیدھا ہو جاتا ہے۔ میں اپنے تمام بزرگ دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں آپ کے بچے اگرسولہ سے پچیس سال کی عمر میں ہیں تو آپ ان پر نظر رکھیں اور میں اپنے تمام نوجوان دوستوں اور خواتین کو مشورہ دیتا ہوں آپ کا خاوند یا والد چالیس سال میں قدم رکھ رہا ہے تو آپ اپنے شوہر یا والد پر نظر رکھیں کیونکہ اس وقت اس کے بگڑنے کے چانس ہوتے ہیں۔

اسی طرح میں تبلیغ کرنے والے حضرات کو بھی اکثرسمجھاتا ہوں آپ سولہ سے پچیس سال اور چالیس سے پینتالیس سال کے لوگوں کو ٹارگٹ کیاکریںاور پچیس سے چالیس اور پینتالیس سے ساٹھ سال کے لوگوں پر اپنا وقت ضایع نہ کریں ‘ یہ لوگ آپ کے قابو نہیں آئیں گے۔ انسان کو پہلے اور دوسرے دونوں ادوار میں مشیروں اور مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ ان ادوار میں ان کے لیے اچھے اساتذہ کا بندوبست ہونا چاہیے۔

میں واپس گستوف ایفل کی طرف آتا ہوں‘گستوف ایفل بھی عمر کے پہلے خطرناک دور سے گزر رہا تھا‘ وہ بری صحبت کی طرف مائل تھا‘ وہ کام چور اور سست بھی ہو گیا تھا اور والدین کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتا تھا۔ اس کے ایک استاد نے اس کے مزاج کی یہ تبدیلی بھانپ لی‘ اس نے اسے ساتھ لیا اور اسے اٹلی اور فرانس کے بارڈر پر لے گیااور اسے آبشار کے نیچے کھڑا کر دیا‘یہ کوہ الپس کی کوئی آبشار تھی اور یہ دونوں اس آبشار کے نیچے کھڑے تھے۔

استاد نے سگار منہ سے نکالا اوربولا ’’پانی نرم ہوتا ہے اور پتھر سخت اور دونوں کی سختی اور نرمی کے درمیان ازل سے ایک جنگ جاری ہے‘ پانی پتھر کی سختی کو توڑنا چاہتا ہے اور پتھر پانی کی نرمی کو شکست دینا چاہتا ہے‘‘ استاد رکا اور اس نے شاگرد سے پوچھا ’’لیکن تم جانتے ہو یہ جنگ کون جیتتا ہے؟‘‘ شاگرد نے چند لمحے سوچا اور پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ استاد مسکرا کر بولا ’’پانی۔۔ کیونکہ پانی ہمیشہ پتھروں کا دل چیر دیتا ہے‘ یہ انھیں ریت کے چھوٹے چھوٹے ذروں میں تحلیل کر دیتا ہے اورپھر ان ذروں کو سیکڑوں‘ ہزاروں میل تک پھیلا دیتا ہے‘‘۔

شاگرد کے چہرے پر حیرت پھیل گئی‘ استاد بولا ’’اللہ تعالیٰ نے پانی کو ایک ایسی شاندار صلاحیت سے نواز رکھا ہے جو قدرت کی کسی دوسری تخلیق میں نہیں‘ اللہ تعالیٰ نے پانی کو مستقل مزاجی سے نوازہ ہے‘ پانی برستے‘ گرتے اور چلتے ہوئے تھکتا نہیں ‘ یہ ایک ہی رفتار سے مسلسل آگے بڑھتا چلا جاتا ہے چنانچہ یہ اپنی مستقل مزاجی سے پتھروں کو ریت کے ذروں میں تبدیل کردیتا ہے‘‘۔

استاد رکا اور اس نے شاگرد کو بتایا ’’اللہ تعالیٰ نے پانی کے بعد انسانوں کو بھی اس صلاحیت سے بہرہ مند کر رکھا ہے ‘انسان کے پاس اگرکوئی ہنراورکوئی صلاحیت نہ ہو‘یہ ذہنی‘ جسمانی اور روحانی لحاظ سے معذور ہی کیوں نہ ہو‘ یہ غریب‘ نادار اور مسکین ہی کیوں نہ ہو‘ یہ غلام ابن غلام اور ناکام ابن ناکام ہی کیوں نہ ہو لیکن اگریہ مستقل مزاجی اپنا لے تو یہ دنیا میں سب کچھ پا سکتا ہے‘ یہ پانی کی اس آبشار کی طرح اپنی محرومیوں‘ اپنی ناکامیوں اور اپنی تمام معذوریوں کے پتھروں کو ریت کے ذروں میں تبدیل کر سکتا ہے‘یہ اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو اڑا سکتا ہے‘‘۔

استاد رکا‘ اس نے شاگرد کی طرف دیکھا اور آبشار کی بلندی کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’ایفل تم اگر چاہو تو تم پانی کی اس گرتی ہوئی دیوار پر چڑھ کرآبشار کے ماخذ تک پہنچ سکے ہوکیونکہ اللہ کی اس زمین پر انسانی عزم اور حوصلے کے سامنے کوئی چیز نا ممکن نہیں بس اس کے لیے ارادہ اور مستقل مزاجی چاہیے اور تم آج فیصلہ کر لو تو تمہارا نام رہتی دنیا تک سلامت رہ سکتا ہے‘‘ گستوف ایفل نے آبشار کی بلندی کی طرف دیکھا اور اسی وقت فیصلہ کر لیا وہ آبشار کی چوٹی تک پہنچے گا‘ اس کا یہ فیصلہ بعدازاں ایفل ٹاور کی شکل میں سامنے آیا اور آج دنیا کے تمام کونوں سے 8کروڑ لوگ سالانہ پیرس پہنچتے ہیں‘ ایفل ٹاور کی چوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں اور پیرس کو آبشار کی چوٹی سے دیکھتے ہیں۔

آپ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مستقل مزاجی اور ارادے جیسی ایسی نعمت سے نوازا ہے جس کے ذریعے ہم لوگ نا ممکن کو مشکل میں تبدیل کر سکتے ہیں اور اس مشکل کو بعدازاں ممکن بناسکتے ہیں۔ مستقل مزاجی ایسی نعمت ہے جو پانی کی دھار کو تیشہ بنا دیتی ہے اور یہ تیشہ پتھر کا جگر پھاڑ دیتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی میں صرف ارادے اور مستقل مزاجی کا فرق ہوتا ہے‘ مستقل مزاج لوگوں کا قد کاٹھ خواہ چیونٹی کے برابر ہی کیوں نہ ہو یہ چلتے چلتے بالآخرپہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں اور غیرمستقل مزاج لوگ خواہ ہاتھیوں سے بڑے ہی کیوں نہ ہوں یہ مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

انسان کوکامیاب زندگی کے لیے زیادہ لمبے چوڑے اصولوں اور کسی وسیع چارٹر کی ضرورت نہیں ہوتی ‘اسے کامیابی کے لیے بس پانچ عادتیں درکارہوتی ہیں۔ اس کا ارادہ مضبوط اور اٹل ہو‘ یہ تمام لوگوں کو پسند کرے لیکن اعتماد کسی کسی پر کرے‘ کسی کی تقلید نہ کرے لیکن تمام لوگوں سے سیکھے اور شیطان کی طرح مستقل مزاج ہو اور فرشتوں کے اخلاص سے محنت کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کامیابی کی چوٹی تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔