اسرائیل، بیت المقدس اور مسلم امہ

شکیل فاروقی  منگل 8 اگست 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ترکی کے مشہور اور سب سے بڑے شہر استنبول میں ہزاروں کی تعداد میں پرجوش افراد نے اسرائیل کی انتظامیہ کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں کیے جانے والے نام نہاد سیکیورٹی انتظامات کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کا اہتمام ترکی کی معروف اسلام پسند جماعت ’’سعادت پارٹی‘‘ نے کیا تھا۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ترکی اور فلسطین کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔

اس مظاہرے میں ہزاروں خواتین بھی سراپا احتجاج تھیں۔ ’’سعادت پارٹی‘‘ کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ غزہ کے عوام کے لیے امید کی ایک روشن کرن اور اسرائیلیوں کے لیے خوف کی علامت ہے۔ ’’دراصل اسرائیل دہشت گردی کے الزامات کی آڑ لے کر مسلمانوں سے مسجد اقصیٰ چھیننا چاہتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ترکی کے صدر طیب اردوان کے ہیں جو انھوں نے اپنے خلیجی ممالک کے حالیہ دورے کے اختتام پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہے تھے۔ انھوں نے مسلم ممالک سے یہ بھی کہا کہ ’’ آئیں! ہم سب مل کر مقبوضہ بیت المقدس کا تحفظ کریں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جس مسلمان کو بھی مسجد اقصیٰ جانے کا موقع ملے وہ وہاں ضرورجائے اور قبلہ اول کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرے۔

آئیے! ذرا اپنے قبلہ اول القدس کی تاریخ پر ایک سرسری سی نظر ڈالیں تاکہ اس کی اہمیت اور عظمت کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ ’’القدس شریف 35 درجہ طول شرقی اور 31 درجہ ارض شمالی پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی بلندی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی اونچائی 1150 میٹر ہے۔ بحر روم سے اس کا فاصلہ 52 کلومیٹر، بحر مردار سے 22 کلومیٹر اور بحر احمر سے 250 کلومیٹر ہے۔  القدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ناصرف مسلمانوں بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق یہ تقریباً 45 صدیوں پرانا شہر ہے۔ 1049 قبل مسیح میں اسے حضرت داؤدؑ نے فتح کیا تھا جب کہ حضرت سلیمانؑ کے دور میں اسے بہت ترقی ہوئی۔

586 قبل مسیح میں یہ اہل فارس کے قبضے میں آگیا۔ فارس والوں کے اقتدار کا سلسلہ سکندر کے قبضے تک جاری رہا جو 332 قبل مسیح میں ہوا۔ 63 قبل مسیح میں یہاں رومی قابض ہوگئے۔614 میں اہل فارس اس پر دوبارہ قابض ہوگئے۔ القدس کو مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ نے فتح کیا جس کے بعد عرصہ دراز تک یہ مسلمانوں کے پاس رہا۔

گیارہویں صدی عیسوی میں یورپی عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور حضرت عمرؓ کے حسن سلوک کے برعکس انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ ڈھائے۔ کثیر تعداد میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں لا لا کر قتل کیا گیا اور مسجد میں گھوڑوں کا اصطبل بنادیا گیا جسے ’’اصطبل سلیمان‘‘ کے نام سے پکارا گیا۔ 80 سال تک عیسائیوں کے قبضے میں رہنے کے بعد 1178ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے مسلمانوں کے لیے دوبارہ فتح کیا اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ یہاں مدارس اور مکاتب قائم کیے۔

مسجد اقصیٰ کے احاطے میں وہ مشہور ’’دیوار بر اق‘‘ بھی ہے جہاں سے ہمارے پیارے نبیؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی خوبصورتی، تاریخی اہمیت اور فضیلت پر انگریزی عربی اور اردو میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں جن کے مطالعے کے بعد کوئی بھی غیر جانبدار شخص صرف یہی نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ اس کی تولیت کے اصل حقدار صرف اور صرف مسلمان ہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے 1916 میں ’’اعلان بالفور‘‘ کے تحت ایک یہودی ریاست کا مکروہ منصوبہ پیش کیا گیا جس کے بعد انگریزوں نے 2فروری 1924 کو فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یہاں پر پہلے برطانوی کمشنر کے طور پر ہربرٹ سیموئیل نامی شخص کو مقرر کیا گیا جو کٹر یہودی تھا۔ یہ ایک دیدہ و دانستہ سازش تھی تاکہ یہودیوں کے لیے فلسطین کے دروازے کھول دیے جائیں۔

امریکا کی صہیونی تنظیموں نے یہاں زمینیں خریدنے کے لیے بے تحاشا رقوم فراہم کیں۔ آخرکار 1948 میں یہودیوں نے یہاں برطانیہ کی سرپرستی میں اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا۔ اس کے فوراً بعد جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں اسرائیل نے قبضہ کرکے اپنے رقبے کو دو گنا کرلیا۔ 1950 میں اردن نے فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی علاقے پر اپنا قبضہ جمالیا لیکن 1967ء کی جنگ میں دریائے اردن کے مغربی علاقے ’’صحرائے سینا‘‘ اور شام کے جولان کے پہاڑی علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 1973 میں اسرائیل کی عربوں سے پھر جنگ ہوئی جس میں ’’صحرائے سینا‘‘ کا علاقہ تو مصر نے دوبارہ حاصل کرلیا مگر فلسطین کے بہت سے علاقے اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔

1987 میں مجاہدین نے یہودیوں کے خلاف سخت جدوجہد کا آغاز کیا اور یہودیوں کے آگے سینہ سپر ہوگئے لیکن چونکہ اسرائیل کی پشت پر امریکا، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتیں تھیں لہٰذا وہ دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کرتا رہا۔ انسانی حقوق کی بعض غیر جانبدار تنظیموں کے شدید احتجاج پر مجبوراً امریکا نے اپنا رویہ کسی حد تک تبدیل کیا جس کے نتیجے میں 2002 میں سابق امریکی صدر بش نے 2005 تک فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک روڈ میپ کا اعلان کیا۔

اسی سال یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اپنے بیانات میں اس روڈ میپ کی توثیق کردی۔ اس امن روڈ میپ کے مطابق اسرائیل کو فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا پابند بھی کیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ایسا کرنے کے بجائے مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیں۔ چنانچہ القدس کو کشادہ کرنے کے بہانے عربوں کے محلے، اسلامی آثار اور مقامات مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ستم بالائے ستم یہودی مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی مکروہ سازش میں بھی ملوث ہیں۔ اسرائیلی مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے اس کی جگہ پر ہیکل سلیمانی  تعمیر کرنا چاہتے ہیں یا پھر کم ازکم اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ ہر طرح کے ذرایع استعمال کر رہے ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ جب فلسطینی مسلمان اسرائیلی جارحیت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تو اس وقت عرب دنیا خواب غفلت کے مزے لے رہی تھی اور مسلمان ممالک خلیج کے بحران کی آڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف تھے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کی سب سے بڑی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم امہ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے چکر میں پڑ کر اپنے اجتماعی حقوق کے تحفظ کا احساس کھوچکی ہے اور باہمی اختلافات اور انتشار کا شکار ہے۔ بقول اقبال:

وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔