مذاق نہ بنائیں

محمد سعید آرائیں  منگل 8 اگست 2017

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم نہیں بنیں گے اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی رہیں گے اور شاہد خاقان عباسی عام انتخابات کی مدت پوری ہونے تک وزیر اعظم رہیں گے اور 45 روز کے لیے عبوری وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ اگر شاہ محمود قریشی کا یہ گمان درست ثابت ہوجائے تو شریف خاندان سے ایک اہم الزام بھی ہٹ جائے گا اور میاں نواز شریف کی عزت اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوگا اور وزارت عظمیٰ مذاق نہیں بنے گی۔

بعض سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف خود اپنی غلطیوں اور خوشامدیوں میں گھرے رہنے ہی کی وجہ سے موجودہ صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں اور نواز شریف اور ان کے حامیوں سمیت غیر جانبدار حلقوں کو یہ امید قطعی نہیں تھی کہ انھیں اتنی سخت سزا ملے گی۔ نیب کے ریفرنسوں کا فیصلہ بعد میں آئے گا اور وزیر اعظم معمولی غلطی پر نااہل قرار پائیں گے ۔

عجیب بات ہے کہ جس کا پاناما لیکس میں نام نہیں تھا وہ پاناما سے سزا نہ پاسکا اور اقامہ اس کے گلے پڑگیا اور نوازشریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ وصول نہیں کی کیونکہ خود ان کے بقول ایسا کرکے ہی وہ دبئی سے پاسپورٹ لے سکتے تھے جس کے لیے اقامہ لینا ضروری تھا اور ان کے تو پاکستان آنے پر پابندی تھی۔ کہتے ہیں کہ آدمی کبھی کردہ گناہ یا جرم سے بچ جاتا ہے اور ناکردہ جرم کی سزا اس کا مقدر بن جاتی ہے مگر وہ جسے ناکردہ گناہ کی سزا سمجھتا ہے اس کے کیے گئے کسی ایسے گناہ کی سزا ہوتی ہے جسے وہ جرم یا گناہ نہیں سمجھتا یا وہ اسے یاد نہیں رہتا کہ کوئی ایسی خطا اس سے کب سرزد ہوئی تھی۔

نواز شریف مذہبی رجحان رکھتے ہیں اور انھیں جنرل پرویز کے ہاتھوں معزولی کے بعد اپنی غلطیوں کا احساس ہوا تھا اور انھوں نے اپنے ایک قریبی ساتھی سے اعتراف بھی کیا تھا کہ اقتدار میں ان سے ایسی غلطیاں ضرور ہوئی ہیں جو آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے اور انھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو غلطیوں سے گریز کریں گے مگر تیسری بار اقتدار کے چار سالوں میں وہ پھر غلطیاں کرگئے اور بعد میں اپنے اعتماد کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئے اور پاناما میں نام نہ ہونے کے باوجود خود پاناما میں جا پھنسے ۔

کچھ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ صادق و امین نہ ہونے کے جس الزام میں وہ نااہل قرار پائے ہیں اس آرٹیکل 62-63 کو ملک میں کبھی اہم سمجھا گیا تھا نہ کبھی اس پر توجہ دی گئی تھی۔ ملک میں تو یہ حالت ہے کہ نیچے سے اوپر تک آرٹیکل کے معیارکا کوئی سیاستدان ہے ہی نہیں البتہ مذہبی اور غیرسیاسی حلقوں میں ایسے افراد ضرور مل جائیں گے مگر وہ تعداد میں کم ہوں گے۔

میاں نواز شریف انسان ہیں فرشتہ ہوتے تو کبھی اقتدار اور سیاست میں نہ آتے کیونکہ سیاست جھوٹ سے شروع ہوکر جھوٹ پر ہی ختم ہوتی ہے اور مذہبی اقدار پر یقین رکھنے والے جنرل ضیا الحق نے شاید یہ سوچ کر آرٹیکل 62-63 کو آئین کا حصہ بنوایا تھا کہ شاید سیاست کے ذریعے اقتدار میں صادق و امین لوگ آجائیں مگر ایسا نہیں ہوا اور ایسے لوگ اقتدار میں آئے جو وعدے تو کیا تحریری معاہدوں سے بھی منحرف ہوئے اور کہتے تھے یہ آسمانی صحیفہ تو نہیں ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد کہا ہے کہ 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے موقعے پر پیپلز پارٹی آئین سے آرٹیکل 62-63 ختم کرنا چاہتی تھی مگر نواز شریف نہ مانے اور اسی آرٹیکل کا نشانہ بن گئے۔ 62-63 کو آئین میں شامل رکھنے کے حامی نواز شریف کے انکار سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ وہ سیاست میں لوگوں کے صادق و امین ہونے کے حامی ہیں مگر ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے قومی اسمبلی میں پاناما لیکس پر غلط بیانی کی اور اپنی بے گناہی کے ثبوت پیش نہ کرسکے اور ایک معمولی رقم کا اثاثہ جات میں ظاہر نہ کرنے پر آرٹیکل 62-63کی خلاف ورزی کے مجرم قرار دے دیے گئے اور ان کی اسی اچھی نیت کا بھی خیال نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی اور نواز شریف اس سلسلے میں نظرثانی کی جو اپیل کریں گے اس سے فیصلہ تبدیل ہونے کی امید اس لیے نہیں کہ نظرثانی والے ججوں نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی ہے اور نواز شریف کے وکلا بھی تبدیل نہیں ہوسکتے اگر فل بینچ بھی بن جائے تو مشکل ہے کیونکہ فیصلہ مستقبل میں چیف بننے والوں نے دیا ہے باقی جج ان کے جونیئر ہوں گے اس لیے نواز شریف اب صبر ہی کریں اور نیب کے ریفرنسوں کی فکر کریں۔

ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت چار روز بعد پھر قائم ہوچکی ہے اور شریف خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے شاہد خاقان عباسی 221 ووٹ لے کر وزیر اعظم بن چکے ہیں جنھوں نے نواز شریف ہی کو عوام کا حقیقی وزیر اعظم قرار دیا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم ہیں جو خود تو نواز شریف نہیں بن سکتے مگر 45 دنوں میں انھوں نے 45 ماہ جتنا کام کرکے دکھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو خوش آیند ہے اور وہ خود کو عبوری وزیر اعظم سمجھے ہوئے ہیں جب کہ ان کی عبوری مدت مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً آٹھ ماہ باقی رہ جائیں گے جس کے بعد میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنائے جانے کا امکان تو ہے مگر موجودہ صورتحال میں یہ بھی امید ہے کہ وہ عبوری وزیر اعظم نہ ہوں۔

45 دن کے عبوری وزیر اعظم کا تقرر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں کیا تھا اور نہ جانے کیا سوچ کر شوکت عزیز کو ظفر اللہ جمالی کی جگہ لانے کا آمرانہ فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف بولنے کی حکومت کی حامی سیاسی قوتوں میں جرأت نہیں تھی جو جمہوری وزیر اعظم اور اپنے سابق سیاسی رہنما کے خلاف بولتے نہیں تھکتے اور جنرل پرویز کے آگے مجبور تھیں اور جنرل پرویز کو ایک اچھی شہرت کے حامل مسلم لیگی کو ہٹا کر ایک غیر سیاسی امریکی نیشنل کو وزیر اعظم بنانے سے روک نہیں سکی تھیں۔ شوکت عزیز کو تو دو سال سے زیادہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا تھا مگر عبوری وزیر اعظم کے بعد آنے والے وزیر اعظم کو صرف آٹھ ماہ ہی اقتدار میں رہنے کا موقعہ ملے گا جو خود ان کے لیے بھی بہتر ثابت نہیں ہوگا۔

میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو 8 ماہ کے لیے وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ نہ جانے کیا سوچ کر کیا ہے جب کہ اکتوبر 1999 میں انھوں نے جنرل پرویز کو ہٹاتے وقت جو فیصلہ کیا تھا۔ وہ غلط فیصلہ انھیں اقتدار سے باہر کر گیا تھا اور اب خود اقتدار سے باہر ہوکر نواز شریف اپنے وفادار بھائی کو وزیر اعظم دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ میڈیا خبروں کے مطابق شہباز شریف خود بھی شاہد خاقان عباسی کے بعد وزیر اعظم بننا نہیں چاہتے۔

وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی کارکردگی ان کے مخالفین کے علاوہ دنیا تسلیم کرتی ہے جو اب بھی جاری رہنا ضروری ہے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا اہم گڑھ اور شہباز شریف کی بہترین کارکردگی 2013 کی طرح 2018 میں بھی (ن) لیگ کی کامیابی کی ضمانت کہی جا رہی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ پنجاب کی حکومت برقرار رہنے دی جائے اور باقی مختصر مدت کے لیے شہباز شریف کو وزیر اعظم نہ بنایا جائے اور ملک کو اس ماضی میں نہ دھکیلا جائے جب نہرو کی دھوتی تبدیل نہ ہوتی تھی پاکستان کا وزیر اعظم تبدیل کرادیا جاتا تھا۔ جون 2018 تک شاہد خاقان کے برقرار رہنے سے میاں برادران کے مخالفوں کی زبان بھی بند ہوجائے گی کہ میاں صاحب اقتدار اپنے خاندان سے باہر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔