موسمی رہنما

سید نور اظہر جعفری  منگل 8 اگست 2017

میں ایک آزاد کالم نگار ہوں جس کا رنگ، نسل، زبان، علاقے، مسلک کے اعتبار سے کسی سے کوئی ایسا تعلق نہیں ہے کہ جس کی بنا پر میرا کوئی بھی جھکاؤکسی ایک جانب ہو، بس جو غلط ہے وہ کل بھی غلط تھا آج بھی غلط ہورہا ہے تو غلط ہے، سرفراز نے کل بھی دھوکا نہیں دیا تھا آج بھی دھوکا نہیں دیا، کل بھی دھوکہ نہیں دے گا مگر اس کی پاداش میں سرفراز کے ساتھ کیا ہوگا وہاں سے میرا کالم شروع ہوگا۔

آج سرفراز زیر بحث نہیں ہے نا عرصہ دراز سے کامیابیوں کو ترسی ہوئی ٹیم اور قوم یہ ضرور ہے کہ جب تک ہماری ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے یہ ٹرافی ہم سے دوبارہ چھن نہیں جائے گی ہم اس کے نشے میں اس کے سرور میں رہیںگے، قوم کا نشہ اور سرور خیر علامتی ہے مگر بڑوں کے سرور کا تو پوری قوم کو علم ہے اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے مگر ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے، نظر آنے سے کیا ہوتا ہے۔

کامیاب تو بیان بازیاں جیسے سنچری فخر زمان نے نہیں کسی اور نے بنائی تھی، یا وکٹ بھی کسی اور نے لی تھیں۔ اور اگر ناکام ہو تو نام نہاد انکوائریاں جن کے نتائج الیکشن کے نتائج کی طرح ہوتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا کہ اصل میں ہوا کیا تھا اور پانچ سال گزر جاتے ہیں۔ خیر چھوڑیں یہ ہمارا قومی رونا ہے جو ہارتا ہے وہ بھی روتا ہے جو جیتتا ہے وہ خوف سے روتا ہے اور قوم تو ووٹ دے کر دوسرے دن سے رونا شروع کردیتی ہے قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے اس نصف صدی سے زیادہ عرصے میں اس قدر دعوے ہوچکے ہیں کہ اب پاکستان کی قوم چاند پر آباد ہے۔ چاند پر جذبے نہیں ہوتے ہوںگے صرف رومانس ہوگا شاید چاند کو دیکھتے رہو اور بس ہوش وخرد سے بھلا کیا تعلق۔

تو یہی حال ہمارا ہے ہم سڑک پر ہیں،کہاں کہ سڑکوں کی بات کریں، چاند پر نالیاں نہیں ہیں گٹر نہیں ہیں تو کہاں کا ذکر کرتے ہیں لوگ، چاند پر گرمی نہیں ہے، ٹھنڈا ہے چاند تو برقی رو کا کیا سوال، پانی کی وہاں ضرورت نہیں پڑتی شاید تو صاف پانی بھلا کس کے لیے چاہیے۔ ایسے خواب ہمارے سیاست دان اور ان کی اولاد سیاست دان کیونکہ سیاست اب انڈسٹری ہے اور زیادہ تر جوتا انڈسٹری ہے تو یہ لوگ دکھاتے رہتے ہیں جون کا آخری دن ہے جب یہ قلم رواں ہے بارش ہوچکی ہے اور بارش کے بعد کے حالات بھی ہوچکے ہیں فنڈز ہڑپ کرنے کو ’’فنڈز بھیڑیے‘‘ بتارہے ہیں اور ان کی آرزو ہے کہ اور جم کر برسے تاکہ زیادہ حصہ فنڈ مل سکے۔

آرزو کی کوئی انتہا نہیں انسان ظالم اور جلیل ہے یہ کہہ دیا گیا لہٰذا وہ اس کے دنیاوی ترجمے پر عمل کرتے ہیں۔ پولیس والے کو کچل دیتے ہیں۔ ’’اچکزئی‘‘ میں ابھی تو ان کا شاید ہی کچھ بگڑے بعد کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے ہی اخباری اطلاع کے مطابق وہ ایک اغوا کے کیس میں کچھ نہیں بگڑا آتے جاتے، پولیس کو بھی ’’بے شرم‘‘ کہتے ہیں ہر پیشی کے وقت اور پولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی ’’شرمناک‘‘ …!یہ بھی چھوڑیں لطیفے دیکھیں حیدرآباد میں کراچی کی ایک نجی کمپنی کو چار ہزار روپے روزانہ پر سرکس قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی، سرکس لگ گیا میرے کالم تک تو متعلقہ فرد سینٹر کا بیڑہ غرق کرکے اپنا مفاد حاصل کرچکا ہوگا۔ اس شہر کو قیام پاکستان سے قبل ہرچند میل کے فاصلے پر گرین بیلٹ اور پارکوں سے مزین تھا۔ رہنے والوں اور آنے والوں کے مشترکہ مفادات نے کھنڈر کردیا ہے۔

گرین بیلٹس پارکنگ ایریا بن چکی ہیں سب کو ’’حصہ‘‘ مل رہا ہے لہٰذا سب خاموش اور شہر ماتم کناں ہے ایک ایک انچ زمین پر مفاد اُگ رہا ہے ختم کردو درختوں کو، پرندوں سے کہو حیدرآباد چھوڑ کرکہیں اور جا بسیں، کہیں بیٹھنے، سستانے کی جگہ نہ چھوڑو جب جذبات کمرشل ہیں تو زمین کیوں نہیں؟ دوسرا لطیفہ سارے شہر میں اور خصوصاً سندھ میں عوام برقی رو کے محکمے کے ہاتھوں پریشان ہیں اور دامن اٹھا اٹھاکر اور ٹائر جلا جلا کر احتجاج کر رہے ہیں۔ Low voltage اور عدم فراہمی یہ وہ خامیاں ہیں اس نظام کی جو اب خوبیاں ہیں جن پر ایک وزیر مملکت بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

نالائقوں کی اس کھیپ سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے پاکستان اور پاکستانیت دونوں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے اس پانچ سال میں علاقائی تعصب کا بدترین مظاہرہ کیا گیا اور نا اتفاقی کا بھی بھرپور مظاہرہ احمد پور شرقیہ کے معاملے اور پارا چنار سے عدم توجہی سے ظاہر کیا گیا، بعد میں سب کچھ ’’لیپاپوتی‘‘ تھا اور وہ بھی سلیقے سے نہیں کیا گیا، وزیر مملکت اطلاعات کا پشاور کا دورہ محض زخموں پر نمک تھا متاثرین کے۔

بات کسی اور طرف نہ چلی جائے تو واپس اس تاریخ پر آتے ہیں اس دن خبر ہے کہ حیسکو چیف نے نیو ماتلی گرڈ اسٹیشن کا افتتاح کردیا اور فرمایا صارفین کو بہتر وولٹیج کے ساتھ بجلی میٹر اور لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوگی اس موقعے پر تمام افسران بمعہ یونین موجود تھے ان کی بدقسمتی اور ہماری خوش قسمتی سے ہم ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئر بھی ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پہلے بجلی گرڈ کو ملے گی تو سب کچھ بہتر ہوگا یا گرڈ خود اپنی بجلی پیدا کرے گا؟ ابھی تک تو دنیا بھر میں کسی گرڈ اسٹیشن نے اپنی بجلی پیدا نہیں کی سوائے ڈیم کے، گرڈ یا پاور اسٹیشن کے کہ اس کو ڈیم سے بجلی ملتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ گرڈ اسٹیشن ایک انتظامی یونٹ ہے اس کے افتتاح کا کیا سوال؟ کل پولوں پر بلب تبدیل کیے جائیںگے تو حیسکو چیف یہ بھی کام کریںگے افتتاح کرنا بڑی بیماری ہے ۔

ایک ستم اور ہے نام نہاد قوم کے ہمدردوں کی پاکستان میں یہ ہر صوبے میں علاقائیت کے پرچارک ہیں لبادہ نیشنل ازم کا اوڑھ لیتے ہیں اور کام لوگوں کو تقسیم رکھنا ہے اور مفادات حاصل کرنا ہیں۔ یوں یہ سیاست دانوں کی B ٹیم ہیں اور A ٹیم میں کھیلنے کے منتظر ہیں۔ (Adyocasy) ایک ایسے ہی صاحب ہیں جو کبھی صاحبزادے تھے ان کے والد بزرگوار بھی سیاسی ایڈوکیسی میں زیادہ رہے قوم کو تو بھلا کیا ہوتا شاید اپنا بہت بھلا کرلیا پچھلے دنوں یوں لگ رہا تھا کہ کوئی سال دو سال پہلے کہ شاید باپ بیٹے کا مقابلہ ہونے جارہا ہے مگر پھر والد صاحب نے پس منظر میں جانا پسند کرلیا مگر وہ امدادی فوج اب بھی ہیں بیٹے کی در پردہ۔

تو صاحبزادے نے فرمایا ان کے کہ سندھ کو اور پاکستان کو ترقی یافتہ بنائیںگے، تعلیمی ایمرجنسی کو ڈراما قرار دیا زراعت اور صحت کے شعبوں پر بھی کچھ فائر کیے حکمرانوں نے اپنی زمینوں کے لیے سیدھے واٹر کورس نکال لیے ہیں اس پر اعتراض کیا۔

ہر تین چار ماہ بعد یہ فوٹو اسٹیٹ بیانات سیاست دانوں کا اور ایسے عوامی لیڈروں کا عام وطیرہ ہے ہمیں نہیں معلوم کہ ہر چار پانچ ماہ بعد پاکستان کا ہر صوبہ غیر ترقی یافتہ یا اس دوران ترقی یافتہ کیسے ہوجاتا ہے۔

مثال کوئی نہیں دیںگے مگر اچانک یہ لوگ نمودار ہوتے ہیں، بیانات دیتے، لوگوں کو سڑکوں پر لاتے اور پھر کوئی نادیدہ ہاتھ انھیں سلادیتا ہے وہ ہاتھ گولڈن ہینڈ ہے یا آئرن ہیڈ اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔

یوم حساب بہت دور نہیں لگتا اور حساب سب کا ہوگا آپ کا بھی میرا بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔