ڈاکٹر اللہ داد بوھیو کی شخصیت

لیاقت راجپر  منگل 8 اگست 2017

ہم لاکھ چاہیں مگر ڈاکٹر اللہ داد بوھیو جیسے نہیں بن سکتے، جس نے بچپن سے مرتے دم تک محنت، مشقت اور علم و ادب کی خدمت کرتے عمر گزار دی، غربت اور تکلیفیں بھی اس کی راہ نہ روک سکیں، وہ خوداری کے علمبردار تھے، بھوکے رہے مگر خوشامد نہیں کی، ان کی زندگی آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ میں ایسے لوگوں کو اس لیے یاد کرتا ہوں کہ ہماری نئی نسل ایسے لوگوں کی محنت اور جذبہ پڑھ کر وہ بھی اسی راہ پر نکل آئیں اور اپنے لوگوں کی خدمت کریں، تاکہ علم کی روشنی چاروں طرف ہماری باقی نسل کی راہ کو منور کردے اور خوشحالی اور ترقی ان کا مقدر بنے۔

انھوں نے زندگی کی ساری تکلیفیں اٹھائیں جس نے ان کے اندر محنت کرنے کا جذبہ پیدا کیا اور ان کے کہنے کے مطابق اگر وہ حالات اور غربت سے مقابلہ نہیں کرتے تو وہ کوئی بھی مقام حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ ان کی خودداری، جفاکشی اور محنت نے ان میں اعتماد پیدا کیا اور وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے، جس میں ان کے والد کا بڑا ہاتھ ہے جو غربت کے ہوتے ہوئے بھی چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ کر بڑا آدمی بنے۔ اللہ داد کا بچپن بڑی غربت، بھوک اور افلاس میں گزرا، جس کی حد یہ ہے کہ ان کے پاس پاؤں میں پہننے کے لیے جوتے بھی نہیں ہوتے تھے اور وہ ننگے پاؤں تپتی دھوپ اور سخت سردی میں گھومتے تھے۔

انھیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا، اس لیے وہ صبح اسکول سے فارغ ہوکر سیدھا اپنے والد کے ساتھ زمین پر کام کرنے جاتے، ان کی مدد کے لیے گھاس کی کٹائی اور بھینسوں کے لیے چارہ لے جانا، انھیں چرانے کے اور نہلانے کے لیے لے جانا بھی ان کی ذمے داری ہوتی تھی۔ وہ مالی کمزوری کے باوجود پڑھتے بھی رہے اور کام بھی کرتے رہے۔ ان مشکلات پر قابو پاتے ہوئے انھوں نے میٹرک کا امتحان 1953 میں پاس کرلیا، جس کے لیے انھیں لاڑکانہ شہر کے گورنمنٹ ہائی اسکول جانا پڑتا تھا، جب کہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان شہر ہالا سے پاس کیا۔ اب مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ پرائمری ٹیچر کی نوکری کرنے لگے۔

وہ سرکاری نوکری بھی کرتے تھے اور پرائیویٹ طور پر پڑھتے رہے۔ انھوں نے ایم اے انگریزی ادب میں کیا اور بعد میں ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کرلیا، اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کسی سے کوئی مدد حاصل نہیں کی، پوری زندگی کوئی بھی غلط کام نہیں کیا جس کی وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑتی، ان کا ضمیر صاف اور مطمئن تھا، انھوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سودا بازی نہیں کی اور حق و حلال کی روزی کمانے کو ترجیح دی۔ غربت کو کبھی بھی احساس کمتری میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے والد کی محنت اور ایمانداری کو وسیلہ تحرکInspiration بنایا۔ پرائمری ٹیچر سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی اور ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کے عہدے پر پہنچے۔

لاڑکانہ کے ایک چھوٹے گاؤں گھارو میں 8 اگست 1934 میں ایک ہاری کے گھر پیدا ہوئے، والدہ بچپن ہی میں یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں، جس کی کمی وہ بڑی شدت سے محسوس کرتے تھے۔ ان کے والد پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو بابو بنائیں۔ غربت اور ماں کی محبت نہ ملنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں اکیلا پن پیدا ہوگیا تھا، اس لیے وہ زیادہ بولنے سے گریز کرتے تھے اور جو بھی وقت انھیں ملتا وہ علم اور ادب پر صرف کرتے اور چاہتے تھے کہ ان میں جدت لے آئیں۔ جس کے لیے انھوں نے تعلیم محکمہ میں بڑے عہدے ٹھکرائے اور بچوں کو پڑھانے اور سسٹم میں تبدیلی لانے کے لیے سرگرم رہے۔

ان کی زندگی کا یہ مشن تھا کہ وہ تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ پڑھنے کے دوران ان میں اتنی قابلیت آگئی تھی کہ حکومت کی طرف سے انھیں اسکالر شپ ملتی تھی۔ شروع میں 12 آنے ملتے تھے، جس میں سے وہ دو ماہ خرچہ بچاکر ایک جوڑا کپڑے بنواتے تھے، جو سال بھر کام آتا تھا۔ دن کو کام اور رات کو موم بتی کے نیچے پڑھتے اور فخر سے لوگوں کو بتاتے کہ وہ ایک ہاری اور مزدور کا بیٹا ہے۔

جب وہ 20 گریڈ تک پہنچے پھر بھی ان کی طبیعت میں سادگی تھی اور وہ اپنے عہدے پر اتراتے نہیں تھے بلکہ عاجزی اور انکساری سے کام لیتے۔ وہ ہمیشہ پڑھے لکھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھے اور ان کے حلقہ احباب میں ادبی لوگ شامل ہوتے تھے، جن سے وہ علم و ادب کے علاوہ اور کوئی غیر ضروری گفتگو نہیں کرتے۔ ان کے دوستوں میں عبدالکریم تراب، ایک شاعر تھے اور وہ انگریزی زبان میں بڑی مہارت رکھتے تھے، ان کی خوشخطی اور سوشل کاموں میں حصہ لینے کی وجہ سے بھی بوھیو کی دوستی ان کے ساتھ مضبوط ہوگئی۔ اس کے علاوہ قاضی عبدالغفار بھی تھے، جس کی وجہ سے وہ شاعر بھی بن گئے اور ان کا پہلا لکھا ہوا شعر یعنی نظم ’’حقدار‘‘ اخبار میں 1949 میں چھپی، یہ اخبار کامریڈ حیدر بخش جتوئی نکالتے تھے۔ بوھیو شاعری میں تخلص عاصم استعمال کرتے تھے۔

انھوں نے شارٹ اسٹوریز بھی لکھی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ معاشرے میں ہونے والے سماجی جھگڑے، ناانصافیاں، زیادتیاں اپنے بنائے ہوئے کرداروں میں دکھاتے تھے، جو پڑھنے والوں کے لیے سبق کے علاوہ راہ بھی متعین کرتا تا ان کے لکھنے کا انداز اور کرداروں کی پیشکش بڑی خوبصورت تھی کہ پڑھنے والے کرداروں، ڈائیلاگ اور پلاٹ میں گم ہوجاتے تھے۔ ان کی کہانیوں کی کتاب جو انگریزی میں لکھی گئی تھی، اس کا عنوان تھا Tales Retold، جس میں لوک اور ماڈرن ماحول کو ملاکر لکھی گئیں، اس لیے ان کی استعمال کی ہوئی Diction اور ٹاپک نے زبان میں چاشنی بھردی ہے، جس کی وجہ سے بوھیو نے ادب کی دنیا میں خاص طور پر کہانیوں میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے اور وہ دوسروں کے مقابلے میں الگ نظر آرہے ہیں۔ ان کے لکھنے کے انداز میں آرٹ بھرا ہوا ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔

بوھیو نے جو ریسرچر اور نقاد بن کر کام کیا ہے وہ مکمل طور پر سائنٹیفک طرز کا ہے، جس سے پڑھنے والوں کی سوچ کا معیار بلند ہوجاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں Professionalism جھلکتا ہے، ان کے لکھے ہوئے آرٹیکل، مقالے جو کئی اخباروں اور رسائل میں چھپ چکے ہیں، انھیں پڑھنے سے نالج میں اضافہ ہوتا ہے، ان کی تحریروں میں ان کے تجربات، مشاہدات اور مطالعہ شامل ہے۔ وہ ہمیشہ کسی بھی چیز کے لیے لکھنے سے پہلے ذہن میں خاکہ کئی عرصے پہلے بناکر رکھ دیتے تھے اور وقت آنے پر اسے تحریری شکل دیا کرتے تھے، یہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ عام آدمی کی ذہنی سطح بلند ہوجائے اور تعلیم نہ صرف عام ہو بلکہ تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے۔

انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 1977 میں socio cultural effect of language کے موضوع پر حاصل کی، جو ایشیا میں پہلی بار کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھا ہوا کہ انھوں نے تعلیم اپنے ملک سے حاصل کی اور کسی کا بھی احسان ان کے سر پر نہیں ہے، ورنہ وہ ساری عمر اس احسان کرنے والے شخص کا غلام بن کے رہتے۔ آنے والی نسلیں گزرے ہوئے لوگوں کے کارناموں اور خدمات سے اپنا مستقبل روشن کرتی ہیں اور ہم خوش نصیب ہیں کہ ہماری زمین نے بوھیو جیسی شخصیات پیدا کیں، جن سے ہمیں اپنی منزل تلاش کرنے میں آسانی ہورہی ہے۔ اللہ داد بوھیو 16 جولائی 1994 میں اس عارضی دنیا کو خیرباد کرکے چلے گئے، مگر ہمارے لیے تحریروں کا خزانہ چھوڑ گئے، جن سے وہ زندہ رہیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔