فلم ڈائریکشن کے لیے تعلیم ضروری ہے ؟

قیصر افتخار  منگل 8 اگست 2017
یہ بات توطے ہے کہ فلم بنانے کا فارمولا کتابوں میں نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

یہ بات توطے ہے کہ فلم بنانے کا فارمولا کتابوں میں نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

دنیا بھرمیں فلمسازی کے شعبے میں ’ ڈائریکٹر‘ کوایک خاص مقام حاصل ہے۔

ڈائریکٹرکوفلم کا ’ کپتان ‘ بھی کہا جاتا ہے اوراکثر فلم انہی کے نام سے منسوب بھی کردی جاتی ہے۔ بلاشبہ فلم کا ڈائریکٹرہونا اورڈائریکشن دینا بڑے ہی اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ مگراکثردیکھنے میں آیا ہے کہ جس کوفلم کے شعبے میں کوئی کام نہیں آتا ہے، وہ بالآخرفلم کی ڈائریکشن دینے لگ پڑتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

پاکستان اورپڑوسی ملک بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں ایسے بہت سے نام نہاد ڈائریکٹر موجود ہیں، جنہیں فلم کی ڈائریکشن کی ’الف ب‘ تک پتہ نہیں ہوگی ، مگرپھربھی وہ بڑی ڈھٹائی سے خود کو’’ فلم ڈائریکٹر‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ویسے ایسا توزندگی کے تمام شعبوں میں ہی ہوتا ہوگا اورایسے لوگ بڑی تعداد میں ہمارے ارد گرد گھومتے بھی ہیں، جوکام کرنے کے بجائے باتیں کرکے وقت پاس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور عملی طورپراگران کے کام کا جائزہ لیا جائے توان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے۔

خیرہمارا موضوع توفلم ڈائریکشن ہے لیکن اس موضوع کے ساتھ ساتھ ایک سوال جس کا جواب جاننا بے حدضروری ہے کہ ایک بہترفلم ڈائریکٹر کے لیے اس کا صرف تجربہ کار ہونا ضروری ہے یا پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا اوریا بہترڈائریکٹروہی ہوگا جس کے پاس تعلیم کے ساتھ زندگی کے بہترین مشاہدے کرنے کی صلاحیتیں بھی ہوں گی؟

اگرہم بات کریں پاکستان فلم انڈسٹری کی تو، شاندارماضی سے لے کرجدید ٹیکنالوجی سے بننے والی فلموں کے دور تک ایسے بہت سے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جو ڈائریکشن کے شعبے میں اپنی مثال آپ ہونے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے اوربہت سے کامیاب ڈائریکٹرایسے بھی تھے جن کے پاس تعلیم یا تونہ تھی یا پھر کم تعلیم یافتہ تھے لیکن ان کی بنائی گئی فلموں کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ ان کی ڈائریکشن کا انداز اورفلمسازی بالکل منفرد تھی۔ وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود انہوں نے ایسی فلمیں بنائیں جن کولوگ آج بھی دیکھ کرخوش ہوتے ہیں۔

ماضی اورموجود دور کے نامورڈائریکٹرزمیں شباب کیرانوی، سید شوکت حسین رضوی، نذرالسلام، انورکمال پاشا، ایس سلیمان، مسعود پرویز، حسن طارق، ڈبلیو زیڈ احمد، ریاض شاہد، ایم جے رانا، جاوید فاضل، حسن عسکری، اقبال کشمیری، ناصر ادیب، شمیم آراء، سنگیتا، جان محمد، سعید رضوی، پرویزرانا، حسنین، اسلم ڈار، یونس ملک، پرویزکلیم، سیدنور، شہزاد رفیق، سید فیصل بخاری، شعیب منصور، مسعود بٹ، عثمان پیرزادہ، ثمینہ پیرزادہ، عجب گل، شان ، ریما ، نور، مہرین جبار، ندیم بیگ، نبیل قریشی، احسن رحیم، یاسر نواز، فرجاد نبی، مینوگور، اسدالحق، ارباز خان، عاصم رضا اور سرمدسلطان کھوسٹ سمیت دیگرشامل ہیں مگران کے علاوہ برصغیرکی عظیم گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں سمیت بہت سے معروف فنکاربھی ایک، آدھ فلم میں ڈائریکشن دے چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کوکامیابی ملی اورکچھ کوناکامی لیکن انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنے کو ہی ترجیح دی، کیونکہ ایک ڈائریکٹرکا کام بہت ذمہ داری سے انجام دینے کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس شعبے کا انتخاب کرنے والے بڑی سمجھداری کے ساتھ اس شعبے کو اپناتے ہیں۔

اس سلسلے میں ویسے توبہت سے ماہرین نے اپنی اپنی رائے کااظہارکیا ہے لیکن پاکستان فلم انڈسٹری سے گزشتہ چاردہائیوں سے وابستہ معروف فلم رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر پرویز کلیم نے ’’ایکسپریس‘‘سے فلم ڈائریکشن کے موضوع پر اہم اور دلچسپ گفتگو کی، جوقارئین کی نذرہے۔

پرویزکلیم کا کہنا تھا کہ فلم ڈائریکشن کے شعبے میں ’ڈائریکٹراعظم‘ کا خطاب پانے والے ڈائریکٹر محبوب اعظم ان پڑھ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایسی کمال فلمیں ڈائریکٹ کیں، جن کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اب ذرا بات کریں فلم ڈائریکشن اورتعلیم کی تو تعلیم ڈائریکشن نہیں سیکھاتی، یہ تو ڈائریکشن کو سمجھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہ بات توطے ہے کہ فلم بنانے کا فارمولا کتابوں میں نہیں ہے۔

اس کیلئے نوجوان فلم میکرز کو عملی طورپرمیدان میں آنا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک تواچھا ڈائریکٹر وہی ہے جوتعلیم کے ساتھ اپنے مشاہدات کو سلور سکرین پر لانے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی بات کریں توماضی کا دورالگ تھا۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ڈائریکشن کے شعبے سے وابستہ تھے اوران کے ساتھ بطوراسسٹنٹ کام کرنے والے کم تعلیم یافتہ لوگ اپنے تجربات کی بناء پر بہتر ڈائریکٹربنے۔ لیکن پھرایک ایسا دوربھی آیا جس میں گجربرادری، بدمعاشوں اورانڈرورلڈ سے وابستہ جرائم پیشہ لوگوںکو ’’ بہتر‘‘ انسان کے طورپرسامنے لانے کی کوشش شروع ہوئی توبہت سے انتہائی کم تعلیم یافتہ یا ان پڑھ لوگوں نے ڈائریکشن کا شعبہ سنبھالا اوراس کا نتیجہ شدید بحران کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

اس کے برعکس اگرہم جاوید فاضل جیسے باصلاحیت ڈائریکٹرکی بات کریں توانہوں نے اس دورمیں ’’بازارحسن اوربلندی ‘‘ جیسی یادگارفلمیں ڈائریکٹرکیں۔ یہی وہ فرق ہے جوایک تعلیم یافتہ ڈائریکٹراورایک ان پڑھ ڈائریکٹرمیں فرق کو واضح کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں جوتعلیمی ادارے اب فلمسازی کا مضمون پڑھا رہے ہیں،انہیں نوجوانوںکوبہترتربیت کے لیے تعلیم یافتہ تجربہ کار فلم ڈائریکٹرز، رائٹرز ، کیمرہ مین اوردیگرتکنیکی عملہ کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں، تاکہ انہیں عملی طور پر فلمسازی کا مظاہرہ کرکے دکھایا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، اس وقت تک بہتری کے خواب دیکھنا درست نہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔