نفسیاتی مریض بننے سے بچیئے

 منگل 8 اگست 2017
دنیا کا کوئی موضوع اور مسئلہ ایسا نہیں جس کےارے میں قرآن و سنت میں راہنمائی موجود نہ ہو۔  فوٹو : فائل

دنیا کا کوئی موضوع اور مسئلہ ایسا نہیں جس کےارے میں قرآن و سنت میں راہنمائی موجود نہ ہو۔ فوٹو : فائل

بے شک خالق ارض و سماء نے انسان کو زندگی اس لیے دی ہے کہ وہ اسے اچھی طرح سے جیے۔ مومن کی زندگی کا مقصد تبھی پورا ہوتا ہے جب وہ اسے بھر پور طریقے سے گزارتا ہے۔

رب کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے دیئے ہوئے ضابطے کے مطابق خوب انجوائے کرتا ہے، خوش ہوتا اور اپنے مالک کا شکر ادا کرتا ہے۔ اسی طرح پریشانی اور تکلیف کے وقت بھی اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی پوری طاقت لگا کر اس مشکل وقت سے نکل آتا ہے۔ زندگی کا مقصد صرف یوٹیلیٹی بلز ادا کرنا اور گھسٹ گھسٹ کر وقت گزارنا ہرگزنہیں بلکہ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا اور پھر اس کے رہنے کے لیے پوری دنیا کو ایک خاص نظام کے تحت چلایا۔ اس میں انسان کی ازل سے لے کر ابد تک کی تمام ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر چیز فراہم کر دی تاکہ اس کا خلیفہ یہا ں اپنی ذہنی، جسمانی اور روحانی طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی صلاحیتیوں کو بروئے کار لائے اور ایک بہترین زندگی گزارے۔

ُآج کے پرآشوب دور میں کہ جس میں زندگی کے لوازمات بے حد بڑھ چکے ہیں ، اب روٹی ، کپڑا اور مکان کے علاوہ ذرائع ابلاغ، ذرائع نقل و حمل، تعلیم اور صحت وغیرہ بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہرایک فرد کے لیے ان تما م بنیادی ضرورتوںکا حصول ایک مشکل کام ہے۔ اس پیمانے کی بنیاد پر معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ کہ جو مالی طور پر ان تمام اشیاء کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو جزوی طور پر اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کر پاتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دونوں ہی طبقات زندگی کے اسی گھن چکر میں ہی پھنسے رہتے ہیں اورنہ تو انہیں کچھ اور کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو پاتے ہیں۔

زیست کی ان پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ معاشی ، معاشرتی اور سماجی الجھنیں انسان کو ایسے گھیر لیتی ہیں کہ بسا اوقات وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو شدید دباؤ کا شکار ہو کر نہ صرف یہ کہ اپنے مسائل بڑھا لیتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے اور ایک ناکارہ انسان بن کر رہ جاتے ہیں۔اپنے مسائل سے پریشان لوگ مختلف قسم کے منفی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جس میںلڑائی جھگڑا ، منشیات کا استعمال اور خود سوزی وغیرہ شامل ہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟کون سا ایسا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ جس سے ان تمام مشکلات کی موجودگی میںہم ایک بھرپور زندگی گزار سکیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم دین برحق کے دیئے گئے راہنما اصولوں کے مطابق چلیں گے توایک کامیاب اور پُر سکون زندگی گزار پائیں گے۔ دنیا کا کوئی موضوع اور مسئلہ ایسا نہیں جس کے بارے میں قرآن و سنت میں راہنمائی موجود نہ ہو۔ یہاں ایک چیز بے حد اہمیت کی حامل ہے اور وہ ہے” زندگی کی پریشانیوں سے بے حال لوگوں کے ساتھ ہمارا طرز عمل”۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ جو مختلف قسم کی پریشانیوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، ہمارا نامناسب طرز عمل نہ صرف یہ کہ ان کی زندگی کو اور زیادہ پریشان کن بنا دیتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ ان کے لیے مہلک بھی ثابت ہوتا ہے۔ بقول شاعر

اے دوست راہ زیست میں چل احتیاط سے

گرتے ہوؤں کو یہاں تھامتا کوئی نہیں

حالانکہ اگر ہم تھوڑی سی بھی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ موقع محل کے مطابق اپنے کسی پریشان حال دوست کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں اور مناسب طریقے سے اس کے ساتھ برتاؤ کریں تو نہ صرف یہ کہ ہم اس کی تکلیف بڑھا نہیں رہے ہوتے بلکہ بہت حد تک اس کے ذہنی دباؤ کو کم بھی کر دیتے ہیں۔میری رائے میں تو اس کام کو ایک تحریک کے طور پر لے کر چلنا چاہیے۔ مثلاًسب سے پہلے تو یہ کہ ہم اپنے آپ سے یہ عہد کر لیں کہ آج کے بعد کسی کی دل آزاری نہیں کریں گے ۔ دوسرا یہ کہ ہم اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں پر تھوڑی سی توجہ دینا شروع کر دیں۔

آپ یقین کریں معمولی تجزیے سے ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا فلاں ساتھی کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ اب اگلا مرحلہ اس کی پریشانی کے حل کا ہے جو کہ بہت سادہ ہے اور ہم سب کو معلوم ہے۔ یعنی کسی کے ساتھ اپنے مسائل کو شیئر کرنا۔ آپ میں سے بہت سارے لوگ اس تجربے سے گزر چکے ہوں گے کہ جب آپ پریشان ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں آپ اپنی پریشانی کسی دوست وغیرہ کے ساتھ ڈسکس کرتے ہیں تو چاہے آپ کو اپنے مسئلے کا حل نہ بھی ملے لیکن اس کے بعد آپ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا ضرورمحسوس کرتے ہیں۔

نفسیاتی ڈاکٹر بھی تو بنیادی طور پر یہی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ مریض کے سامنے اپنے آپ کو ایک ہمدرد دوست کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور اسے ماہرانہ انداز اس طرف مائل کرتا ہے کہ وہ اپنے مسائل ڈاکٹر (ہمدرد دوست) کے سامنے کھول کربیان کرے۔ اس کو نفسیات دان بڑی توجہ اور خندہ پیشانی سے سنتا اور پھر اپنے مریض کو مفید مشورے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(زاہد اقبال میانہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔