زخم بھرنے اور دماغ کو بحال کرنے والا جادوئی پیوند

ویب ڈیسک  منگل 8 اگست 2017
یہ چپ بجلی کے ہلکے جھماکوں کے ذریعے خلیات کو ری پروگرام کرتی ہے اور یوں زخم چند ہفتوں میں مندمل ہوجاتا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ چپ بجلی کے ہلکے جھماکوں کے ذریعے خلیات کو ری پروگرام کرتی ہے اور یوں زخم چند ہفتوں میں مندمل ہوجاتا ہے۔ فوٹو: فائل

اوہایو: سائنسدانوں نے سکے کے برابر کا ایک پیوند تیار کیا ہے جو نہ صرف نئے اعضا اگا سکتا ہے بلکہ دماغی افعال بحال کرنے اور زخم میں جینیاتی کوڈ داخل کر کے اسے مندمل کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔

اس اہم ٹیکنالوجی کو ٹشو نینوٹرانسفیکشن (ٹی این ٹی) کا نام دیا گیا ہے۔ اسے جلد کے متاثرہ مقام پر چند سیکنڈ تک لگا کر ہٹا لیا جاتا ہے جو جلد کے خلیات میں جینیاتی کوڈ داخل کرتا ہے جس سے خون کی رگیں درست ہو جاتی ہیں اور تجربات کے مطابق صرف چند روز میں ہی زخم مندمل ہو جاتا ہے۔

اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے ویکسنر میڈیکل سینٹر کے سائنسدانوں نے اسے چوہے پر آزمایا ہے جسے پہلے فالج سے بیمار کیا گیا اور وہ پیروں سے معذور ہو گیا تھا۔ جب چِپ کو اس پر رکھا گیا تو صرف تین ہفتے میں چوہا چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔

اوہایو یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر چندن سین کہتے ہیں کہ ’ہم نے پیوند کو ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے کے لیے متاثرہ حصے پر لگا کر ہٹایا اور خلیات کی پروگرامنگ شروع ہو گئی۔ ماہرین نے کئی طرح سے اس ایجاد کو آزمایا ہے مثلاً چوہے کے زخموں پر لگانے بعد خون کا بہاؤ رک گیا۔

چندن سین کے مطابق چپ عام جلدی خلیات کو اس طرح ری پروگرام کرتی ہے کہ وہ ویسکیولر خلیات بن جاتے ہیں۔ چپ لگاتے ہی چوہے میں خون کی رگیں بننے لگیں اور تیسرے ہفتے میں ان جانوروں کے پیر بالکل ٹھیک ہو گئے۔ ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے دوسرے ماہر جیمز لی نے بتایا کہ یہ عمل جین تھراپی جیسا ہے مگر اس کے فوری نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس سے ڈی این اے قدرے مختلف انداز میں خلیات کے اندر داخل کئے جاتے ہیں۔

چپ میں مخصوص پروٹین کے جینیاتی کوڈ ہوتے ہیں اور جلد کو چھوتے ہی وہ ہلکا کرنٹ داخل کیا جاتا ہے جس سے ٹشو کے اندر جین داخل ہونے کا راستہ بن جاتا ہے۔ کبھی ڈی این اے اور کبھی آر این اے ان راستوں کے اندر جاتا ہے اور خلیات کی پروگرامنگ کو بدلنے لگتا ہے۔ نیچر نینوٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ابتدائی تجربات میں یہ عمل 98 فیصد کامیاب رہا ہے۔

چندن سین کے مطابق یہ جلد کے علاوہ ہرطرح کے خلیات اور بافتوں (ٹشوز) کی افزائش کے لیے کارآمد ہے۔ اس عمل میں خود مریض کا ڈی این اے ہی لیا جاتا ہے اور یوں جسم کی جانب سے کوئی ردِعمل نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔