ملک کا مستقبل اور جمہوری نظام

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 9 اگست 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ڈکٹیٹروں نے ملک کو ٹھیک اور سویلینز نے بیڑا غرق کیا۔ آئین کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، پاکستان توڑنے میں فوج نہیں بھٹوکا قصور تھا۔ کچھ الزام یحییٰ خان پر بھی جاتا ہے۔ ضیاء کا دور متنازع تھا۔ پاکستان کے چوتھے آمر جنرل پرویز مشرف نے ڈکٹیٹروں کے کارناموں کواس وقت سراہا ہے جب ملک میں 27 ویں وزیر اعظم نااہل ہوچکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی جیسا ایک کمزور سیاست دان وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہے۔

سیاسی جماعتوں کے درمیان نچلے درجے کی میڈیا وار سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ بعض بااثر گروہ صدارتی نظام کے ماڈل کے نفاذ اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے بارے میں شگوفے چھوڑ رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جو جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا۔ ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں کو وطن ملا۔ایسا وطن جو تمام ترخرابیوں کے باوجود سست رفتاری سے ہی صحیح مگر ترقی کی طرف گامزن ہے۔

14 اگست 1947ء کی رات کو ملک وجود میں آیا تو مسلم لیگ نے حکومت قائم کی۔ محمد علی جناح نے گورنر جنرل اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا اور آئین ساز اسمبلی نے اپنے بنیادی کام کا آغاز کیا۔ اگرچہ جناح کی رحلت اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے باوجود ملک کے دونوں بازو متحد رہے اور ترقی کے لیے بنیادی منصوبہ بندی شروع ہوئی مگر پھر بیوروکریسی نے سیاسی قیادت پر حاوی ہونا شروع کردیا۔

انگریز دورکے بیوروکریٹ چوہدری غلام محمد نے سینئر رہنما اور بنگال میں مسلم لیگ کو منظم کرنے والے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا۔ جب آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے پہلے سندھ کی چیف کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا تو سندھ کے چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا مگرگورنر جنرل یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئے۔

سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے اسمبلی کو توڑنے کے حکم کو جائز قرار دیا، پہلی دفعہ عدلیہ اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ سامنے آیا۔ یوں نظریہ ضرورت کے فرسودہ اصول کو استعمال کرتے  ہوئے مشرقی بنگال کے عوام میں احساس پیدا کردیا گیا کہ نئی ریاست میں ان کے حقوق مساوی نہیں ہیں مگر 1958ء تک دو بنگالی وزراء اعظم کے مختصر اقتدار نے اکثریتی عوام کے لیے امیدکا روشن دان کھول دیا تھا۔ اس عرصے میں دونوں صوبوں کے لیے بنیادی منصوبے تیار ہوئے۔

اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ حاصل ہوا مگر 1958ء میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ایک طرف تو مشرقی پاکستان ، سندھ، بلوچستان اور پختون خواہ کے عوام احساس کمتری کا شکار ہوئے تو دوسری طرف ایوب حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کا محور مغربی پاکستان رہا۔ ایوب خان نے اپنے صاحبزادوں کیپٹن اختر ایوب اور لیفٹیننٹ گوہر ایوب کو فوج سے ریٹائر کراکر امیر ترین 22 خاندانوں کی فہرست میں شامل کرادیا۔ یوں پہلی دفعہ کرپشن کا ادارہ بننے کا عمل شروع ہوا۔

کشمیر اور مغربی پاکستان میں لڑی جانے والی 1965ء کی جنگ نے مشرقی پاکستان کے عوام کو بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ مغربی پاکستان ان کا دفاع نہیں کرسکتا۔ ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے نقصانات اتنے گہرے تھے کہ بنگالی دانشوروں کے لیے نجات کا راستہ بنگلہ دیش کی آزادی کی صورت میں نظر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے بنگالی ماہرین معاشیات نے 6 نکات تیار کیے جنھیں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے اپنے منشور میں شامل کیا۔ ایوب خان کی حکومت میں ایک ایسا صاحب بصیرت شخص موجود نہیں تھا جو 6 نکات کے پس پشت محرکات کو سمجھتا اور چند سال قبل آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی طرز کی ترمیم کے ذریعے 6 نکات کو اس میں سمو لیا جاتا، یوں مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی نہیں بڑھتا۔

جنرل یحییٰ خان نے دسمبر 1970ء کے انتخابی نتائج کو قبول نہ کرکے اور فوجی آپشن استعمال کرکے ملک کو دولخت کردیا۔ سچائی سے تجزیہ کرنے والے دانشور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے کی ذمے داری غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور ان کے معاون سیاستدانوں پر عائد کرتے ہیں ان میں نمایاں نام ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکی سی آئی اے نیٹ ورک کا حصہ بن کر افغانستان میں جہاد کا فیصلہ کیا۔ یوں امریکی حکمت عملی کامیاب ہوئی اور سوویت یونین بکھر گیا۔

بین الاقوامی دنیا میں امریکا کی عملداری کے لیے درپیش چیلنج ختم ہوا۔ مذہبی انتہاپسندی کا عنصر اس خطے  میں پھیل گیا، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر نے پورے معاشرے کو لپیٹ لیا اور جنرل ضیاء الحق کی افغان مجاہدین کی حمایت کی پالیسی نے جنیوا معاہدہ بے اثر کردیا، یوں طالبان ابھرے اور پھر افغانستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔

افغانستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سرحد پارکوئٹہ اور پشاور سے منتقل ہوتی ہوئی کراچی اور گوادر تک پہنچ گئی۔ سابق صدر پرویزمشرف جو امریکا کی افغان جنگ میں اتحادی بن گئے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت نے بھارت کی مداخلت روکنے کے لیے طالبان کی سرپرستی کی، یوں ملک کا کوئی شہر مذہبی دہشت گردی سے نہیں بچ سکا۔ اس جنگ میں ہزاروں فوجی، پولیس افسران اور سویلین افراد اس مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے منتخب نمایندوں نے 1973ء کا آئین تیارکیا۔1947ء سے اب تک یہ واحد دستاویز ہے جس پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سمیت تمام سیاسی گروہ اتفاق کرتے تھے۔ بھٹو حکومت نے تعلیم، صحت، کسانوں، مزدوروں اور خواتین کے لیے جو اصلاحات کیں اس کے دوررس نتائج نکلے۔ ملک کو ایٹم بم بننے کا عمل کا سہرا بھی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

اگرچہ ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے آئین کو معطل کیا مگر 1973ء کا آئین بحالی کے بعد فیڈریشن کے اتحاد کی علامت بن گیا۔ یہ 1973ء کا آئین ہی ہے جس پر عملدرآمد کرنے کی بناء پر 2013ء میں اقتدار پر امن طور پر منتقل ہوا اور 2012ء میں ایک منتخب وزیر اعظم کو عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد میں ناکامی پر اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

2017ء میں ایک اور وزیر اعظم کے دور میں ان کے ماتحت وزارتوں کے افسران نے اپنے وزیراعظم کے خلاف تحقیقات کیں اور اس تحقیقاتی رپورٹ کی بناء پر سپریم کورٹ نے 1973ء کے آئین کی شق 62 کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار دیا اور برسر اقتدار جماعت کو فوری طور پر اس فیصلے پر عملدرآمدکرنا پڑا۔ دوسری طرف جنرل پرویز مشرف نے آئین کو معطل کر کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی مگر وہ کبھی عدالت نہیں گئے اور اب جنرل صاحب سیاسی جماعت بنا کر انتخاب جیت کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔

اگرچہ ہر طرف سے یہ آوازیں آتی ہیں کہ تمام سیاست دان کرپٹ ہیں مگر مولانا  فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (NAB) کی رپورٹوں کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیورو نے سب سے زیادہ رقم فوجیوں سے، پھر بیوروکریٹس اور پھر سیاستدانوں سے وصول کی ہے۔ وزیر اعظم کا احتساب کے بعد ججوں اور جنرلوں کے احتساب سے ہی ملک میں حقیقی طور پر کرپشن ختم ہوگی۔ معزول وزیر اعظم نواز شریف آج سے جی ٹی روڈ سے عوامی مہم شروع کررہے ہیں۔ عوام کے ردعمل سے عدالتی فیصلے کے اثرات کا اندازہ ہوگا۔

جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اچھی طرز حکومت قائم ہو اورکرپشن کے لیے ہر سطح پر صفر برداشت کی پالیسی اختیارکی جائے اور موروثی سیاست کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بہرحال اس ملک کا مستقبل جمہوری نظام میں ہی مضمر ہے۔ جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مقررہ وقت پر شفاف انتخابات منعقد ہوں اور اقتدار فوری طور پر منتخب نمایندوں کو منتقل ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔