کچھ نئے طبیب

عبدالقادر حسن  بدھ 9 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میرے جیسے پرانے اور علاج معالجے کے عادی مریض کے ساتھ پرانے تعلق کی وجہ سے مریض کی کچھ امراض یا علاج کے بارے میں نیم حکیمانہ تجربہ بھی ہو گیا ہے لیکن شکر ہے کہ یہ تجربہ ابھی تک اپنی حدوں سے بڑھ نہیں پا رہا اور اپنے معالجوں کے لیے یہ پریشانی کا باعث نہیں بنا۔

ہمارے ایک بزرگ یا دآتے ہیں جب وہ کسی قبرستان کے قریب سے گزرتے تو اپنی زندگی کے تجربے کو سامنے رکھ کر اپنا یہ فتویٰ ضرور دہراتے کہ اس قبرستان میں آدھے لوگ تو نیم حکیموں کے تجربے کی مار ہیں البتہ نصف دوسرے شوقیہ معالجوں کا نشانہ بنے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا علاج میرے مشورے پر کیا گیا ہے اس طرح بالواسطہ میں بھی کئی اموات کا ذمے دار ہوں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوں لیکن جن مخالفوں کی زندگی میں ان کا دشمن تھا وہ تو زندہ سلامت میرے سینے پر مونگ دل رہے ہیں البتہ جن کا میں دشمن تھا ان میں سے کئی ایک ہمارے گاؤں کے قبرستان میں کہیں محو خواب ہیں خدا ان کے گناہ معاف کرے ہمارے پاس اب اس دعا کے سوا کیا ہے اور یہ دعا بھی پتہ نہیں دل کے کس گوشے سے نکلتی ہے۔

دعا بددعا ہماری سماجی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ دوستوں کے لیے دعا اور دشمنوں کے لیے بددعا انسانی عادت ہے خصوصاًدیہات کی زندگی میں کسی کام کے آغاز پر دعائے خیر یا کسی کے حق میں بری سوچ ایک دیہاتی عادت ہے اور زندگی کا ایک رویہ اور عمل ہے جو دیہی روایت اور تہذیب کے مطابق ایک معمول ہے جس سے مفر نہیں ہے اور یہ ایک عادت ہے جس کے آغاز سے کوئی تحریر شروع ہوتی ہے اور روانی پکڑتی ہے۔

یاد نہیں اور ایسا شائد ممکن بھی نہیں زندگی میں کتنی تحریریں لکھی ہیں اور ان کا یاد کرنا ممکن بھی نہیں اور نہ ہی کوئی ضرورت ہے کہ ان میں سے ایک تحریر بھی ایسی نہیں جو قابلِ ذکر ہو اور جس کا آج کی تحریروں میں حوالہ دیا جائے۔ پہلی تحریر کسی کلمہ یا کسی معروف محاورہ یا کسی بزرگ کا کوئی قول ہی ہو گا جو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہو گا یا مناسب بہرکیف کچھ بھی ہو آج اپنا یہ بچپن کا کارنامہ تو یاد نہیں اور اس کا یاد نہ رہنا بھی بچپن کی ایک غلطی ہی تصور کی جائے ان لاتعداد غلطیوں میں سے ایک جن کا ٹوٹا پھوٹا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور شاید جب بھی ماضی دہرایا جائے تو ہو سکتا ہے کوئی ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر کہیں سے جڑ جائے گا جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ میری تحریروں میں شاید ہی کوئی ٹکڑا یاد رکھنے کے قابل ہو۔

تحریر کا سلسلہ وقت کی صحافت سے متاثر ہو کر شروع کیا جو کوئی علمی موضوع نہیں ہوا کرتا تھا حالات ِ حاضرہ کا ایک سلسلہ تھا جو اخباروں میں جاری رہتا تھا۔ ہر اخبار کابیانیہ ہوتا ہے کہ خبر حالات کا تازہ بیانیہ ہوتا ہے جو بدلتا نہیں ہے۔ حالات اسے ایک خاص شکل وصورت میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا کہ ہر معاصر اہم اور قومی خبروں میں یکساں ہوتا ہے۔

خبروں میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں معروف صحافت میں خبروں کا شعبہ ہر وقت ’’بازی گری‘‘ میں مصروف رہتا ہے اور ہر روز دوسرے اخباروں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے خصوصاً خبروں کے شعبے میں۔ جب سے ملک میں خبریں ٹیلی ویژن سے نشر ہونا شروع ہوئی ہیں تب سے خبروں کے شعبے میں مقابلہ بازی کی ایک ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ہر نیوز چینل سب سے پہلے خبر دینے میں بازی لے جانے میں صحافت کا بیڑہ غرق کر رہا ہے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے بعض اوقات اپنی ہی نشر کی گئی خبروں کی تردید پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اس سے چینل کی ساکھ تو نقصان پہنچتا ہی ہے مگر صحافت اور صحافی بھی براہ راست اس کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کو اپنی جلد بازی کی قیمت عوام کے طعنوں کی صورت میںملتی ہے جو کہ صحافت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے اور اسی جلد بازی کی وجہ سے صحافی اپنی قدر کھو رہے ہیں جو کہ ہم جیسوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے کیونکہ ہم نے اخباری صحافت میں اپنی حتیٰ المقدور کوشش کی کہ ہماری خبر کی تردید نہ ہو اور ہمیشہ ایسی خبر دینے سے گریز کیا جس میں مشکوکیت کا عنصر ہو۔ ہمارے زمانے میں خبر کی تردید رپورٹر کی صحافتی موت تصور کی جاتی تھی اور اگر رپورٹر کی کسی خبر کی تردید آجاتی تو وہ شرمندگی سے اپنے ہی ساتھیوں سے منہ چھپائے پھرتا ہوتا۔

اخبار نویس کا بنیادی کام حکومت کی خبریں عوام تک اور عوام کے مسائل حکومت تک ایمانداری اور ذمے داری سے پہنچانا ہوتا ہے کہ اخبار نویس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے حکومت اور عوام دونوں مرہون منت رہتے ہیں۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اخبار نویس کاکام اور اس کا حل حکومت کے پاس ہوتا ہے اخبار نویس صرف مسائل کی نشاندہی کر سکتا ہے باقی کام حکومت کا ہوتا ہے کہ وہ اس پر کس قدر توجہ دیتی ہے۔ میں بدقسمتی ہی کہوں گا کہ آج کل کی صحافت بھی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس تقسیم نے اخبار نویسوں کی غیر جانبداری کو بری طرح متا ثر کیا ہے جس کی وجہ سے صحافی کا غیر جانبدار ہونے کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔

پسند ناپسند ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ایک صحافی کو خبر لکھتے وقت اور آج کل کے دور میں سناتے وقت مکمل طور پر غیر جانبدار تجزیہ کرنا ہوتا ہے جو کہ اب ناپید ہو تا جا رہا ہے اور میرے ساتھی اسی جانبداری اور غیر جانبداری کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں اس وقت بھی یہ بات نہایت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور آنے والے وقت میں اپنی بے قدری اور صحافت کی بے توقیری کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو چکے ہیں جو کہ ملکی صحافت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ آپ اس سے کب تک بچ سکتے ہیں پس یہ آپ کی ہمت اور فنکاری ہے ورنہ سخت جال لٹک رہے ہیں اور خبروں کے شکار ان میں پھنستے ہی رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔