ایسا نہ ہو کہ دردبنے دردِ لا دوا

سعد اللہ جان برق  بدھ 9 اگست 2017
barq@email.com

[email protected]

ہم سوچ رہے ہیں کہ اس لیے سوچ رہے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ اور ہمیں آتا ہی نہیں ہے اس معاملے میں آپ ہمیں کچے یا نیم پاکستانی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اصلی اور پکے پاکستانیوں نے سوچنے یا کرنے کرانے کا سارا کام دوسروں کے حوالے کر رکھا ہے اور صرف بولنے کا کام اپنے لیے رکھا ہوا ہے لیکن ہم ابھی اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ہر کام کے لیے چینی یا جاپانی یا امریکا رکھ لیں۔ہاں تو ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اس سے بھی زیادہ بُرا ہو سکتا ہے اور اگر ہوسکتاہے کہ تو خدا وہ وقت نہ لائے ہمارے ہاں بڑے بزرگ جب کسی کے ساتھ کسی بڑی مصیبت میں ہمدردی کرنے جاتے تھے تو آخر میں اٹھتے وقت دعا دیتے ’’دا غم دے ہیر مہ شہ ‘‘

یعنی خدا تجھے یہ غم کبھی نہ بھلائے یا خدا کرے تم یہ غم کبھی نہ بھولو بظاہر تو یہ بدعاسی لگتی ہے کیونکہ لوگ تو غم بھلانے کے لیے جاتے ہیں کہ غم کے مارے کی کچھ تسلی ہو اس کا یہ زخم مندمل ہوجائے دکھ کم ہو جائے لیکن کہ خدا تجھے یہ غم کبھی نہ بھلائے لیکن بولنے والا اور سننے والا دونوں ان الفاظ کے اندرکی ’’دعا‘‘ سمجھ لیتے تھے خدا کرے تم یہ غم کبھی نہ بھولو۔ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور غم خدا تجھے نہ دے اور یہی ایک غم آخری غم ہو اور پھر غم کو صرف اس سے بڑے غم کے ذریعے بھلایا جا سکتا ہے اس لیے اس ایک غم کو قائم و دائم لکھنے اور کبھی نہ بھولنے میں ہی اس کی بہتری ہوتی۔اور یہ دعا آج کل ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں کہ خدا کرے اس سے بُرا نہ ہو۔ آپ پوچھیں گے کہ کونسا بُرا؟تو ہم کہیں کہ کون سا برا نہیں

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

ایک دن علامہ بریانی برڈ فلو اور قہر خداوندی چشم گل چشم کے درمیان چونچ بہ چونچ ہوگئی جو ان دونوں کا مستقل، مسلسل اور روز کا کام ہے۔قہر خداوندی نے کچھ ناروا بلکہ کچھ زیادہ ہی ناروا بات کہی کیونکہ عام ناروا کہنا تو بقول علامہ کے اس کا پتہ تھا جس پر علامہ کو سخت غصہ آیا جس کا پتہ اس کے چہرۂ مبارک سے چل جاتا کہ اس کی رنگت بالکل ہی پیپلز پارٹی کے جھنڈے جیسے ہوگئی۔

ہم سمجھے کہ اب وہ تو بھی نہایت ہی بلیغ قسم کی اور شین قاف سے درست کوئی گالی یا بددعا فرمانے والے ہیں لیکن ان کا چہرہ اچانک شانت ہو گیا اور پھر مسکرا کر بولے کم بخت اب تو تمہیں کوئی بدعا بھی نہیں دی جا سکتی کہ اس سے زیادہ بد صورت بد سیرت بد کردار نابکار خدائی خوار تم اور کیا ہو سکتے ہو۔ علامہ بریانی کی قہر خداوندی کے بارے میں یہ مستقل رائے تھی کہ اس سے زیادہ بری مخلوق اب تک نہ پید ا ہوئی تھی نہ ہے اورنہ ہوگی۔کچھ ایسا ہی ماننا ہمیں اپنے ’’گل چشم‘‘ کے بارے میں بھی ہے جس کی ایک آنکھ تو بہت پہلے پھوٹ چکی ہے اور سارا زور اسی ایک چشم پر ہے جو روز بروز ڈم ہوتی جا رہی ہے

جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں

جب خون جگر برفاب ہوا

اس لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ اس سے بُرا بھی ہوسکتا ہے اور اگر ہو سکتا ہے تو وہ کیا اور کیسا ہوگا ؟بظاہر تو لگتا نہیں کہ اس سے بھی زیادہ بُرا ممکن ہو ہاں اسی بُرے میں کچھ بڑھو تری ہو سکتی ہے مثلاً فی کس قرضہ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی لاکھ ہو سکتا ہے لوڈ شیڈنگ چوبیس سے بیس گھنٹے ہوسکتی ہے روز گار بھکاری پن سے بڑھ کر بے شرمی بھی ہوسکتا ہے عوام احمق سے زیادہ پاگل ہو سکتے ہیں،وزیر لوگ دگنے بھی ہو سکتے ہیں ان کی ’’مراعات‘‘ یا لوٹ مار چوگنی بھی ہو سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ بُرا؟ ہماری تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے،لیکن ساتھ ہی یہ بھی طے ہے کہ ہماری سمجھ کچھ زیادہ گنجائش والی بھی نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس سے زیادہ ’’بُرا‘‘ بھی ممکن ہو لیکن ہمیں اس کا پتہ نہ ہو اس لیے ہم سوچ رہے کہ اس کے بعد کیا۔ بلکہ کیا کیا ہونا ممکن ہے؟

تمہیں نہیں ہے سر رشتہ ٔ وفا کا خیال

ہمارے ذھن میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہیے

لیکن کم از کم یہ بات تو ہماری چھوٹی سی سمجھ دانی میں آتی ہے کہ امکانات کی دنیا بڑی وسیع ہے وہ بھی ممکن ہے جو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ ہو۔وہ ایک قصہ تو آ پ نے سنا ہی ہوگا کہ دو جڑواں بھائی تھے جن کی پشت آپس میں ملی ہوئی تھی ایک رخ اگر مشرق کی طرف تھا تو دوسرے کا مغرب کی طرف رہتا تھا چلتے وقت ایک کو الٹے پاؤں چل کر دوسرے کے ساتھ گھسیٹنا پڑتا تھا اور بھی بہت ساری تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا رہتا تھا لیکن ان میں سے ایک ہمیشہ دعا کرتا رہتا تھا بلکہ شکر ادا کرکے کہتا تھا کہ یا اللہ اس سے زیادہ بُرا نہ ہو جس پر دوسرا بھائی چڑ کر کہتا تم بھی کمال کرتے ہو۔

اس سے زیادہ بُرا اور ہو بھی کیا سکتا ہے کہ ہماری ایک کل بھی سیدھی نہیں یہ بحثا بحثی اکثر چلتی رہتی تھی ایک دن ان میں سے وہ جو شکر اور دعا کرتا تھا مرگیا اور جو اس زیادہ ’’برے ‘‘ کو ناممکن سمجھتا تھا اس کی لاش کو پشت پر لادے لادے زندہ رہنے پر مجبور ہو گیا تھا حد درجہ تکلیف میں مبتلا ہو گیا کچھ روز مرے ہوئے بھائی کی لاش سڑنے لگی تو بدبو کے مارے کی سانسیں تک رکنے لگیں تب اس نے سوچا میرا بھائی ٹھیک کہتا تھا وہ حالت کتنی اچھی تھی کاش وہ ’’بُری‘‘ حالت ہی جا ری رہتی۔

مطلب یہ کہ سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا کہ اس کا ملطلب کیا ہے اس لیے ہم سوچ رہے ہیں بلکہ دل ہی دل میں دعا کر رہے ہیں اس عورت کی طرح جس کا تیسرا شوہر اسے پیٹتا تھا تو وہ اس کی لمبی زندگی کی دعا مانگتی اور پڑوسن کے پوچھنے پر اس نے کہاتھا کہ پہلے شوہر مجھے صرف برا بھلا کہتا تھا دوسرا گالیاں دیتا تھا اور یہ تیسرا پیٹتا ہے لیکن اگر یہ بھی مرگیا تو چوتھا تو مجھے مار ہی ڈالے گا اس لیے یا اللہ اس سے زیادہ بُرا نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔