ریلی اور سیاسی فیئر پلے

ایڈیٹوریل  جمعرات 10 اگست 2017
پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود نے اپنےروادارانہ بیان میں کہاکہ نواز شریف جس سڑک پرجاناچاہیں انہیں پوراحق ہے ۔ فوٹو : فائل

پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود نے اپنےروادارانہ بیان میں کہاکہ نواز شریف جس سڑک پرجاناچاہیں انہیں پوراحق ہے ۔ فوٹو : فائل

سابق وزیراعظم نواز شریف کی ریلی سیاسی سرگرمیوں کا ایک فسوں ساز سیاسی حوالہ بن گئی ہے۔ سیاسی حلقے شکوک و شبہات کے اس محور پر گھوم رہے ہیں کہ ریلی خود غیر جمہوری اقدام یا غیر آئینی فیصلہ نہیں بلکہ سوالیہ نشان ریلی کے پس پردہ حقائق، اندیشوں اور خدشات سے جڑا ہوا ہے، اپوزیشن جماعتوں ، مختلف سیاسی رہنماؤں ، تجزیہ کاروں ، سیاسی مبصرین اور ماہرین قانون ریلی اور اس کے مضمرات اور آیندہ کے گیم پلان سے متعلق حکومت اور ن لیگ سے بعض تحفظات کا جواب مانگتے ہیں، لیکن جس برہمی ، انداز بیاں اور مروجہ جارحانہ سیاسی روش کے تحت نواز شریف سے اس کے پاور پلے کی بابت اس کے مخالفین حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں اس میں جمہوری اسپیس دینے کی اشد ضرورت ہے، خدانخواستہ ابھی کسی جانب سے عدلیہ یا فوج کے خلاف کسی سیاسی جماعت، یا حکمران طبقہ نے کوئی پیش قدمی نہیں کی ہے۔

اس کے خفیف یا ملفوف اشارے اگر کہیں سے مل بھی رہے ہوں تواس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کے دونوں مقتدر ادارے ملکی سالمیت، نظم حکمرانی، معیشت ، جغرافیائی وحدت اور قومی یکجہتی کی علامت ہیں، جمہوریت سے کمٹمنٹ اور ریاستی اداروں سے مل کر قومی دفاع اور آئین و قانون کی حکمرانی کی ضمانت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ حال ہی میں متعدد بار دے چکے ہیں، لہذا قوم مطمئن رہے کہ کسی بھی مہم جوئی کی کسی جانب سے حوصلہ افزائی نہیں ہوگی، اس ضمن میں میڈیا خلفشار اور جلتی پر تیل ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے عوام کو اطمینان دلائے اور جمہوریت ، ملکی سالمیت، سیاسی رواداری، دور اندیشی ، داخلی امن وامان اور اداروں کے مابین مکمل افہام وتفہیم کے حوالے سے اعتدال اور تحمل کا پیغام دے ، کوشش ہونی چاہیے کہ سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑی نہ اچھالیں ،حقیقت یہ ہے کہ ابھی ریلی نکلی ہے اور شور محشر بپا ہے، سیاسی ٹمپریچر بلندیوں کو چھو رہا ہے، سیاست دان ضبط و تحمل سے کام لیں، سیاست کے آداب کسی بھی کھیل کے فیئر پلے سے الگ نہیںہوتے، جمہوری پیرامیٹرز کا لحاظ کیا جائے۔

سیاسی کشمکش دشمنی کا روپ نہ دھارے، اسپورٹس مین اسپرٹ جمہوریت میں بھی رائج ہے ، ہمیں اس سے بھی کچھ سیکھنا چاہیے، تب جمہوری عمل ملک و قوم کے روشن مستقبل کی گواہی دے سکے گا ۔ غالباً عدالتی حکم میں ن لیگ حکومت اور بطور سیاسی جماعت اس پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے ، جی ہاں وزیراعظم نااہل قرار پائے ہیں، جبھی ن لیگ کو الیکشن کمیشن نے نیا صدر منتخب کرنے کی ہدایت بھی کی ہے اور ن لیگ شہباز شریف کونیا پارٹی صدر مقرر کرنے کا دو ایک دن میں اعلان کرنے کا عندیہ چکی ہے، اس لیے تمام سیاسی رہنما ملک کو ممکنہ بحران سے بچانے کی تدبیر کریں نہ کہ خود کسی ٹریجڈی کا حصہ بن جائیں، اس وقت جوش وجذبہ دیدنی ضرور ہے مگر اسے آئین و قانون کے دائرہ اور شفاف جمہوری رویوں سے مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو اپنا نقطہ نظرپیش کرنے کا حق حاصل ہے، لمحہ موجود میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، پارلیمنٹ موجود ہے، ن لیگ کی حکومت قائم ہے، اس نے نیا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چن لیا ہے جنہوں نے اپنی کابینہ تشکیل دے دی ہے ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلا س ہورہے ہیں اس لیے افواہوں، بے بنیاد خبروں ، قیاس آرائیوں، پیشگوئیوں سے گریز صائب مشورہ ہوگا ۔ بعض لوگوں کے نزدیک ریلی کی سیاسی جدلیات کچھ اور کہانی سناتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کا انداز نظر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے جس وزیراعظم کو نااہل قراردے کر گھر بھیجا ہو وہ کسی ریلی کی سربراہی کا مجاز نہیں، کچھ کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی ریلی گناہ نہیں ، ملکی سیاست میں جلسے ، جلوس اور ریلیوں کی روایت انوکھی بات نہیں ،جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمہ کے لیے سیاسی جماعتوں ، وکلا برادری ، محنت کشوں، طالب علموں ، مذہبی اور دینی جماعتوں ، اقلیتوں اور شہری و دیہی خواتین کی مشترکہ جدوجہد ملکی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، آمریت اور جمہوریت کے درمیان فرق اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی ہے ، عوامی جدوجہد اور مزاحمانہ تحریک ہر طرح کے احتجاجی جلوس  جمہوریت کا اثاثہ رہے ہیں ، تاہم مسلم لیگ ن کے سیاسی ناقدین، اپوزیشن جماعتوں کا ریلی کو سیاسی طاقت کے اظہار سے منسوب کرتے ہوئے مختلف خدشات اور اندیشوں کا اظہار بھی ناروا نہیں، اسی لیے سوالوں کی بوچھاڑ ہے کہ اس شو ڈاؤن کے ملکی سیاست ، ریاستی اداروں ، پارلیمانیت اور جمہوریت پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ نیب پر سپریم کورٹ کا جج بٹھایا گیا ہے جو اپنی مرضی کا ٹرائل کروا کے فیصلہ دلوائیںگے ۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت نہیں ہونی چاہیے، کبھی نہیں چاہوں گا انتشار پھیلے، مجھے گھر بھیجا گیا ہے تو گھر جا رہا ہوں ، گھر جانا پاور شو نہیں ہے۔یہ باتیں انھوں نے پنجاب ہاؤس میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ بہت جلد عام انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں، کارکن تیاری شروع کر دیں، پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا پاناما کیس کا فیصلہ ملکی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے، نواز شریف عدلیہ اور نیب پر دباؤ بڑھانے اور این آر او کی تلاش کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں جب کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے  بیرون ملک سے وطن واپسی پر اپنے استقبال اور شہدائے ماڈل ٹاؤن سے اظہار یکجہتی کے لیے ناصر باغ لاہور میںجلسے سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس بھی پانامالیکس کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی کے سپرد کرے۔ سیاسی پنڈتوں نے جی ٹی روڈ کی دیومالائی حیثیت کا بھی ذکر کیا ہے اور اسی تناظر میں ریلی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود نے اپنے روادارانہ بیان میں کہا کہ نواز شریف جس سڑک پر جانا چاہیں انھیں پورا حق ہے، ادھر سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی پہلی برسی پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے سے دہشت گردی جڑ پکڑ رہی ہے‘ وکلاء پر حملہ آور دہشت گرد اصل میں ملک پر حملہ آور ہیں‘ وکلاء کے قاتل ابھی تک قابو میں نہیں آئے۔سانحہ کوئٹہ کی پہلی برسی پر اپنے دردانگیز خطاب میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دہشتگردی کو نہ ہرایا تو آیندہ نسلوں کو کچھ نہیں ملے گا، وکلا نے کہا کہ سانحہ کے اصل محرکات سامنے لائے جائیںِ۔ بہر حال ضرورت اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے کہ جمہوریت گندا انڈا نہیں کہ کوئی اسے باہر گلی میں پھینک آئے۔ جمہوریت بلاشبہ تمام جمہوری قوتوں سے کمٹمنٹ کا تقاضہ کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔