بھارتی جارحیت پر چین کا سخت موقف

ایڈیٹوریل  جمعرات 10 اگست 2017
عالمی طاقتیں بھی غیر ممالک میں اپنی افواج کے انخلا پر غور کررہی ہیں ۔ فوٹو: فائل

عالمی طاقتیں بھی غیر ممالک میں اپنی افواج کے انخلا پر غور کررہی ہیں ۔ فوٹو: فائل

بھارت کے ہٹ دھرم اور منافقانہ رویے پر چین نے کہا ہے کہ بھارت اپنی افواج ڈوکلام سے واپس بلائے ورنہ چین کالا پانی، اترکھنڈ اور کشمیر میں اپنی افواج داخل کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں چین اور بھارت کے درمیان چپقلش میں اضافہ ہورہا ہے جس کے محرکات میں بھارت کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا اور ڈوکلام کے متنازعہ علاقے میں اپنی افواج داخل کرنا ہے۔ بھارت کا یہ طرز عمل کچھ نیا نہیں، اس سے پیشتر بھی بھارت اپنی ان ہی حرکات سے خطے کے امن و امان کو سبوتاژ کرچکا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ اگر ڈوکلام سیکٹر بھارت کی نظر میں متنازع ہے تو نیپال کے ساتھ بھارت کا کالا پانی تنازع اور پاکستان کے ساتھ کشمیر تنازع بھی حل طلب ہے، جب تک بھارت کا ایک بھی فوجی ڈوکلام میں موجود ہے تو بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ چینی ذرایع ابلاغ کے مطابق چین سے الجھ کر بھارت اپنی تباہی کو آواز دے رہا ہے، یہ نہ سمجھے کہ چین مفادات کا دفاع نہیں کرسکتا۔ چین کے خارجہ امور اور اوقیانوس کے ڈپٹی ڈائریکٹر وان ویلی نے بھارتی میڈیا کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے کیونکہ بھارت سے کسی بھی نظریہ پر مذاکرات سے قبل ہمیں چینی عوام کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے۔

بھارت کو سوچنا ہوگا کہ دو فریقین کے باہمی تنازعے میں اپنی ٹانگ اڑانے کا نتیجہ خطرناک ہوسکتا ہے، چین اتنا تر نوالہ نہیں جو بھارت اسے باآسانی نگل جائے، بھارت کی طرح چین بھی ایک بڑی اکانومی طاقت اور افرادی قوت رکھتا ہے، اس لیے بھارت کو اپنے سابقہ رویے سے گریز برتنا چاہیے۔ دوسری جانب پرائے ممالک میں اپنی غلط  پالیسیوں کا ادراک تو عالمی قوتوں کو بھی ہونے لگا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے افغانستان میں اپنی افواج کو پھنسائے ہوئے امریکا کے حکام اس کیفیت سے سخت نالاں دکھائی دے رہے ہیں، حالانکہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کا گزشتہ دسمبر میں امکان تھا لیکن پھر یہ دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ لیکن اب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان کے معاملے میں ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل نہیں چاہتے، وہ افغان جنگ کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے 16 برس گزر جانے کے بعد اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کا منصوبہ بنایا ہے تاہم خبریں عام ہیں کہ صدر ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم اس معاملے پرمنقسم ہے کہ وہاں مزید فوجی دستے بھیجے جائیں یا تمام فوج نکال لی جائے۔

ایسے حالات میں جب کہ عالمی طاقتیں بھی غیر ممالک میں اپنی افواج کے انخلا پر غور کررہی ہیں ۔ بھارت کا چین سے مخاصمت مول لینا ’’اپنے پیر پر کلہاڑی‘‘ مارنے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کا طرز عمل مستقل جاری ہے، ایک جانب چین کی مخالفت تو دوسری جانب پاکستان کے ساتھ بھی چھیڑچھاڑ سے باز نہیں آرہا۔ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی لیے پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو دفتر خارجہ طلب کرکے بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ رواں سال بھارتی فورسز نے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر 600 سے زائد بار سیزفائر کی خلاف ورزی کی ہے جس میں اب تک 25 شہری شہید اور 110 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ جان بوجھ کر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت، انسانی وقار، بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔