سرکاری ڈسپلن کی بنیاد

عبدالقادر حسن  جمعرات 10 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سرکاری محکموں میں ردو بدل اور اونچ نیچ ہوتا رہتا ہے اور بعض صورتوں میں یہ کئی ایک ملازمین کو پسند بھی نہیں ہوتا اور کئی ایک بعض وجوہات کی بنیاد پر اسے برداشت تو کر لیتے ہیں یا قبول بھی کر لیتے ہیں لیکن یہ تبدیلی ان کی ذاتی یا بعض سرکاری وجوہات کی مجبوریوں کی بنا پر ہی قابل قبول ہوتی ہے اور ایک عام سرکاری فیصلے کی طرح گزر جاتی ہے بہر کیف سرکاری محکموں میں ایسا رد و بدل ایک معمول ہے جو بعض صورتوں میں قابل قبول ہوتا ہے یا قبول نہیں کیا جاتا مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی ملازم ِ سرکار اس وجہ سے اپنی ملازمت سے ہی الگ ہو جائے اور اس کی ناراضگی ہر حد سے گزر جانے پہ ملازمت سے علیحدگی اکثرو بیشتر اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ متاثرہ کوئی سرکاری ملازم کسی کی ماتحتی قبول نہیں کرتا یا دونوں کے درمیان کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا کیونکہ اعلیٰ ملازمت کا حصول یا اس تک ترقی معمول کی بات نہیں ہوتی یہ ایک قربانی ہوتی ہے جو ہر کوئی نہیں کرتا اور اپنی نئی پوزیشن سے سمجھوتہ نہیں کر پاتا۔ درجہ بدرجہ ترقی تو ایک معمول ہے جو سرکاری محکموں میں جاری رہتی ہے اور کئی صورتوں میں اسے خوشدلی سے قبول بھی کیا جاتا ہے۔

کوئی محکمہ ایک خاندان بن جاتا ہے اور اس کے چھوٹے بڑے ملازمین ایک خاندان کے فرد بن کر رہتے ہیں اور اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، یہ انتظار ایک معمولی دفتری کارروائی ہوتی ہے جو ایک مخصوص مدت تک جاری رہتی ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا بلکہ سرکاری محکموں کا یہ ایک معمول ہے جو جاری رہتا ہے اور اسے ہر محکمے میں قبول کیا جاتا ہے ۔ ادھر کچھ عرصے سے اس پرانی روایت میں کچھ فرق آیا ہے اور بعض بااثر ملازمین اس روایت سے بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں ۔یہ وہ ملازمین ِ سرکار ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے اپنے آپ کو بعض دوسرے ملازمین سے اونچا سمجھتے ہیں اور اپنے لیے کچھ مخصوص مراعات کے طلب گار ہوتے ہیں جو محکموں میں اندرونی اختلافات سے پیدا ہوا کرتی ہیں ۔ سینئر ملازمین اور افسر اپنے ماتحتوں کے اس رویئے کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ ایسا رویہ نہ صرف محکمانہ نظم و نسق کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ سرکاری نظم و نسق کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا ہے۔ سمجھدار افسر بڑی سختی کے ساتھ شروع میں ہی اس رویئے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ یہ پھیل نہ سکے اور خرابیوں کا موجب نہ بنے۔

سابقہ حکومتوں نے جس محنت کے ساتھ سرکاری محکموں میں ڈسپلن کی بنیاد رکھی تھی اسے کمزور کرنا گویا ایک گناہ ہے، محکموں کے ڈسپلن کا کمزور ہونا یہ کسی حکومت کی ایک بنیادی کمزوری تصور ہوتا ہے۔ کچھ وقت پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک مانے ہوئے بزرگ مولانا صلاح الدین کے صاحبزادے جو امریکا میں مقیم ہیں، لاہور تشریف لائے اور ایک اخباری تقریب میں انھوں نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں نظم و نسق میں جھول پیدا ہو رہا ہے اور خطرہ ہے کہ ہماری انتظامیہ کمزور پڑ جائے گی جو گذشتہ حکومتوں نے بڑی محنت سے قائم کی ہے اور ایک بار یہ کمزور پڑ گئی تو اسے پھر سے قائم کرنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ وہ استاد ہی موجود نہیں ہوں گے جنہوںنے یہ بنیادی ادارہ قائم کیا تھا اور جس کو مضبوط بنانے پر دن رات محنت کی تھی اور اپنی اس کوشش کو ملک بھر میں پھیلایا تھا اس پر خوب بحث کی تھی لیکن افسوس کہ اس کے مفید اثرات دیکھنے میں نہ آئے۔

آج کل کے انتظامی امور جس طرح سرانجام دیے جا رہے ہیں ان سب کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہی رہتے ہیں اور ہمارے ملازمین اور افسران کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی رہتی ہیں کہ ملک کو جب بھی کسی افتاد کا سامنا ہو یہ انتظامیہ کس طرح کام کرتی ہے اور مشکل وقت میں ہی اس کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ پرانے جید افسران نئے جوان افسران کے ساتھ مل کراپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو انتہائی اہم ذمے داریاں ان نئے افسران کے سپرد کر دی گئی ہیں اور عوام کی رائے کے مطابق محکموں کے نوجوان افسر ان کو بہتر انداز میں نبھا رہے ہیں اور عوام ان سے خوش ہیں چونکہ یہ نئے افسر ابھی تک پرانے نہیں ہوئے اور ان میں وہ خرابیاں جنم نہیں  لے سکیں جو کہ ہمارے انتظامی ڈھانچے کا حصہ ہیں وہ ان خرابیوں سے دور ہیں اور جب تک وہ ان سے کنارہ کش رہیں گے عوام کی بھلائی ہوتی رہے گی اور وہ عوام کی دعائیں لیتے رہیں گے۔

حکومت اور انتظامیہ دونوں کا چولی دامن کا ایسا ساتھ ہے جو کہ الگ نہیں ہو سکتا ہاں اس میں بدگمانیاں ضرور پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ اکثر اوقات حکمران اپنی پسند کے فیصلے چاہ رہے ہوتے ہیں جو کہ ملکی قوانین کے متصادم ہوتے ہیں، اس وقت انتظامی افسران کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ حکمران کو ناراض کیے بغیر ناپسندیدہ کاموں سے ان کو روک سکے چونکہ افسر ملکی قوانین کا امین ہوتا ہے اور اس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کی نا صرف پاسداری کرے بلکہ ان کے غلط استعمال کو بھی روکے اس لیے سمجھدار افسر حکمرانوں کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور غلط کام کرنے سے بچ جاتے ہیں۔

بہرکیف انتظامیہ ملک کو چلانے میں جہاں کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہیں پر انتظامیہ میں ملک کا استحکام مضمر ہے ۔ ہمارے سینئر افسروں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ اگر ماضی میں کی گئی یہ محنت ضایع ہو گئی تو پھر اسے بچانا مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ جو بھی پرانے افسرملتے ہیں وہ انتظامیہ کا شکوہ کرتے ہیں یہ صورتحال ختم ہونی چاہیے ۔ملک کے لیے یہ قابل برداشت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔