سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ

مزمل سہروردی  جمعرات 10 اگست 2017
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر سفر جاری ہے۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور جب آپ پڑھ رہے ہونگے یقینا سفر خیر سے چل رہا ہو گا۔ بس یہی دعا ہے کہ سفر خیریت سے مکمل ہو۔ کیا یہ سفر نواز شریف کی سیاست کو نئی زندگی بخش دے گا۔ کیا پانامہ کے داغ دھل جائیں گے۔ کیا نا اہلیت کا داغ دھل جائے گا۔ یہ سوال اہم ہے کہ آخر اس سفر کا مقصد اور اہداف کیا ہیں۔ جب تک مقصد اور اہداف سامنے نہیں ہو نگے اس کی کامیابی اور نا کامی کا تجزیہ کرنا مشکل ہو گا۔

میاں نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا سفر کامیاب ہی ہو گا۔ اس کی نا کامی کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ جی ٹی روڈ کا یہ سفر افرادی قوت کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا آغاز ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ جتنی گاڑیوں سے یہ سفر شروع ہوا ہے اس کے بعد اس کی کامیابی یقینی ہے۔ چوہدری نثار علی خان گاڑی چلا رہے ہیں ۔وہ بھی مشکل میں ہیں اور ان کے حوالہ سے نواز شریف بھی مشکل میں ہیں۔

پارٹی کی صدارت بھی شہباز شریف کو مل رہی ہے۔ اب چوہدری نثار علی خان کے لیے کچھ ہے ہی نہیں ۔ شاید انھیں ایک لمبا انتظار کرنا ہو گا۔ پارٹی میں نئی قیادت سامنے آرہی ہے۔ نواز شریف کی اس ریلی کا ابھی تک واحد مقصد عوام میں اپنی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ وہ عوام کی عدالت میں اپنے بے گناہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹ بینک کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے نکلے ہیں۔ وہ آگے اپنے خلاف مقدمات کا راستہ روکنے کے لیے نکلے ہیں۔ وہ اپنی مشکلات کو کم کرنے نکلے ہیں۔ وہ اپنے پارٹی کے اقتدار کو بچانے کے لیے نکلے ہیں  تا کہ اگلے انتخابات کو محفوظ کیا جا سکے۔

دوسری طرف جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی وطن واپس آگئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا آنا اور جانا کوئی خبر نہیں۔ وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ جب بھی آتے ہیں ایک دبنگ انٹری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب جاتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ انٹری ممکن نہیں ہو سکی۔ پتہ نہیں ڈاکٹر صاحب یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ بس ایک ہی دفعہ میں وہ سب کچھ بہا کر لے جائیں۔ اور اگر ممکن نہ ہو تو واپسی ۔ اور پھر جب حالات سازگار نظر آئیں تو دوبارہ کوشش شروع۔ شاید وہ کسی مسلسل جدو جہد میں یقین نہیں رکھتے۔ ان کی سیاست کا محور سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی بن کر رہ گیا ہے۔ ان کا سیاسی کردار بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بھنور میں پھنس کر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی سیاسی جدو جہد کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچایا ہے۔ وہ ایک بڑی گیم سے باہر ہو گئے ہیں۔ اب ان کا سیاسی کردار سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں ہی دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔

بعض حلقے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری  سانحہ ماڈل ٹاؤن کی قانونی جنگ ہار چکے ہیں۔ ایک طرف تو وہ نواز شریف کی نا اہلی پر اعلیٰ عدلیہ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کارروائی پر اعلیٰ عدلیہ سے نالاں ہے۔ اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالہ سے صورتحال یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ڈاکٹر صاحب کی نجفی رپورٹ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ٹرائل کا حصہ بنانے کی درخواست مسترد کر چکا ہے۔یقیناً اس فیصلہ نے نجفی رپورٹ کی اہمیت ہی ختم کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ڈاکٹر صاحب کو اپنے حامیوں کو یہ بتا دینا چاہیے کہ وہ نجفی رپورٹ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے استغاثہ میں بطور شہادت پیش کرنے کا مقدمہ  ہار چکے ہیں۔ اب مصیبت یہ ہے کہ جب وہ یہ مقدمہ ہارے تو وہ ملک سے باہر تھے اور ان کے پاس اپنی غیر ملکی مصروفیات میں اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس پر کوئی توجہ دیتے۔

کیا کوئی ڈاکٹر طاہر القادری سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے لانگ مارچ کیا، دھرنا دیا۔ اورکسی طاقتور ادارے کی مداخلت پر ایک ایف آئی آر درج ہوئی۔ اس ایف آئی آر کو درج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ  نے بھی حکم جاری کیا۔ اور اس طرح ایف آئی آر 696 / 14 درج ہوئی۔ جس میں ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت نے 24 ملزمان کو نامزد کیا۔ اب اس ایف آئی آر کے دو سال گزر نے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی جماعت نے 139 ملزمان کے خلاف استغا ثہ دائر کر دیا۔ اب کوئی ڈ اکٹر صاحب سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ نے بار بار سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالہ سے عدالتوں میں موقف تبدیل کیا ہے۔

آپ کی اپنی ایف آئی آر اور استغاثہ کے متن اور ملزمان میں جو فرق ہے اس کا فائدہ کس کو ہو گا۔کیا یہ فرق ملزمان کو فائدہ نہیں دے گا۔ کیا یہ فرق کسی خفیہ کردار کی طرف اشارہ نہیں دے رہا۔ اور کیا اسی فرق کی وجہ سے ٹرائل کورٹ نے شہباز شریف اور دیگر سیاسی افراد کو ابتدائی سماعت کے بعد ہی ملزم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا ڈاکٹر صاحب جو خود ماہر قانون ہیں ان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ایک دن کی تاخیر کیس کو خراب کر دیتی ہے اور آپ نے دو سال کی تاخیرسے استغاثہ دائر کیا۔ اس لیے جہاں ڈاکٹر صاحب کی سیاست سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بند گلی میں پھنس گئی ہے وہاں وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا عدالتی مقدمہ بھی ہار چکے ہیں۔ شائد اسی لیے ان کی واپسی اب حکومت پنجاب کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

شاید اسی لیے اس تھیوری میں کوئی خاص دم نہیں ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی اب واپسی شہباز شریف کے لیے کوئی خطرہ ہے۔ وہ اب کوئی نیا دھرنا دے بھی دیں تو وہ کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ اب ان کو جو بھی شکوے ہیں وہ عدلیہ سے ہیں اور لگتا ہے کہ عدلیہ کو شکوہ ہے کہ انھوں نے قانون سے مذاق کیا ہے۔انھوں نے قانون کو اہمیت نہیں دی ۔میں نہیں سمجھتا کہ ڈ اکٹر طاہر القادری کو اب کہیں سے کوئی اشارہ ہے شاید وہ اب کسی اشارہ کی تلاش میں پاکستان آئے ہیں۔ انھیں اشارے ملنا بند ہو گئے ہوئے ہیں۔ وہ اشاروں والی ٹیم سے نکالے جا چکے ہیں۔ بلکہ اب وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں دوبارہ ٹیم میں شمولیت کے لیے کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ پانامہ والے میچ سے آؤٹ تھے ۔ بلکہ آخر تک کہہ رہے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ وہ پارلیمانی سیاست سے پہلے ہی آؤٹ ہیں۔ اب اشاروں کی سیاست سے بھی آؤٹ نظرآرہے ہیں۔

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ایک خطرناک دور میں داخل ہوچکا ہے۔ اس منظر نامہ میں عمران خان کے لیے بھی مشکلات ہیں۔ آصف زرداری کے لیے بھی مشکلات ہیں۔ نئے منظر نامہ میں نئے مہرے ہونگے۔ نئے کردار ہو نگے۔ جن کو آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مشکل دور ہے۔ بس یہی دعا ہے کہ سب خیریت سے ہو جائے۔ کیونکہ پاکستان کسی سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بس پاکستان کی خیر مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہاں سب اپنی اپنی لڑائی میں پاکستان کو بھول جاتے ہیں۔ یہی خطرناک بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔