کام: حقیقت یا مفروضہ

شبنم گل  جمعرات 10 اگست 2017
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

کچھ قومیں کام کو زندگی سمجھتی ہیں، کیونکہ کام روزی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ قدیم کہاوت کے مطابق کام میں بے ایمانی رزق کا راستہ روک دیتی ہے، اگر کام کم اور اجرت زیادہ ہے تو بھی صحت کو بے ایمانی کی دیمک لگ جاتی ہے۔ ہر غلط کام لاشعوری طور پر ہماری بے اطمینانی کا سبب بنتا ہے۔ یہ Cause and Effect عمل اور ردعمل کا عجیب قانون ہے۔

ایک وقت میں آپ بہت سے کام نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ذہنی مہارت اور جسمانی مستعدی چاہیے۔ بیک وقت دو کشتیوں کے سوار مشکل میں آجاتے ہیں۔ جیسے دو شادیاں، تین بھی ممکن ہوسکتی ہیں۔ دو ملازمتیں یا دوہری پسند۔ یعنی خریداری کرتے وقت دو چیزیں پسند کرنا۔ ایک خرید لیں تو دوسری میں دل اٹکا رہے۔ پھر خریدی ہوئی چیز واپس کرکے دوسری لے کر آئیں۔ لیکن یہ رویے، رشتوں اور محبتوں کے ساتھ اگر روا رکھے جائیں تو سماجی زندگی بد حال ہوجاتی ہے۔ انسان کے پاس چناؤ کا ذریعہ ہے، تو وہ کبھی ایک چیز سے مطمئن نہیں ہوتا، لیکن انتخاب، دائرہ اختیار میں نہیں تو صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

بیرونی دنیا مختلف ہے۔ ایک ہی وقت میں فقط ایک کام کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کی مثال امریکا اور یورپ کے ممالک ہیں۔ معلومات بھی اتنی رکھتے ہیں جتنی ضرورت ہو اور وہ بھی فقط اپنی ذات کے بارے میں۔ ذات ہو یا کام بہت سچائی کے ساتھ دونوں کو برتتے ہیں۔ پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں، مگر اس کا دورانیہ کم اور معاوضہ زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ عام مزدور سے لے کر وزیر اعظم تک آپ کو جاگنگ ٹریک پر دوڑ لگاتے دکھائی دیں گے۔

ہمارے ملک میں صورتحال برعکس ہے۔ ہمارا اصلی کام، پارٹ ٹائم جاب کہلاتا ہے۔ جیسے گھر داری یا ذاتی ذمے داری وغیرہ۔ پیسہ، دولت یا شہرت ترجیح میں شامل ہو تو غیر پیشہ ورانہ رویے عام ہوجاتے ہیں جو فقط پیسہ کمانے کا ذریعہ کہلاتے ہیں۔ منفی رویوں کے توسط سے سستی شہرت پانے کا جنون الگ معاشرتی اقدار کو جھنجھوڑنے لگا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسپیشلائزیشن کا دور ہے۔ ہر شعبے میں مہارت چاہیے (ماسوائے سیاست کے) پہلے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسٹڈی لیو لی جاتی تھی، مگر آج کل نوکری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم جاری رکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ لہٰذا کام کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ اساتذہ اگر کرسیوں پر سوتے ہوئے دکھائی دیں یا آئے دن چھٹیاں کرتے رہیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ طالب علم اتنے ذہین ہیں کہ خود ہی اپنے مضامین کو سمجھ سکتے ہیں۔ نقل کا آپشن الگ موجود ہے۔ گائیڈ بکس کا منافع، تخلیقی ادب سے زیادہ ہے۔ ہر چیز ریڈی میڈ دستیاب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شعبہ کوئی بھی ہو مگر مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والے پروفیشنل ہیں یا مداری! ان کے حیران کن کرتب دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ جاتا ہے۔ کیونکہ ان سے جواب طلبی فقط قیامت کے دن ہوگی! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آخر اصلی قیامت کب آئے گی! یہاں تو ہر دن ایک نئی قیامت کھڑی ہوجاتی ہے، لیکن ایسے لوگ قیامت سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے کیونکہ غالبؔ کی طرح انھیں قیامت کی حقیقت معلوم ہے۔ جنت یا جہنم ذہن کے خلیوں میں سانس لیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ عمل اچھا ہو تو دنیا میں جنت نصیب ہوجائے۔ مفروضات، خوش فہمیاں اور واہمے اور خوشامد جدید دنیا کی جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور بے یقینی میں مبتلا لوگ شکایتوں کی آکسیجن پر زندہ ہیں۔

اتنے زیادہ مسائل ہوں گے تو کام کو کون پوچھے گا۔ سیاست کو ہی دیکھ لیجیے۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی بہبود و بھلائی کے لیے کام کرنا۔ فلاحی ریاست کا تصور تو درکنار یہاں تو عوامی زندگی شکستہ گاڑی پر رواں دواں ہے۔ سیاستدانوں کی ڈور اینکر پرسنز نے سنبھال رکھی ہے۔ اینکرز کی ڈور نہ جانے کن ہاتھوں میں ہے۔ بہت سے ہاتھ ایسے ہیں جو دکھائی نہیں دیتے۔ مگر کام کرتے رہتے ہیں۔ کام کی نوعیت، اہمیت و افادیت سے پوری قوم بے خبر ہے۔ کام مفروضہ اور فرصت، حقیقت بن چکی ہے۔ آفس میں تفریح کے کئی مواقعے موجود ہیں۔ لڑائی جھگڑے، غیبت، خوشامد اور اقربا پروری تو کہیں نہیں گئے مگر ساتھ میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ فیس بک نے کام کی حقیقت اور افادیت کو حد درجہ متاثر کیا ہے۔ بچوں کی پڑھائی تو گئی۔ والدین نے بھی اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ لیا۔ فقط ایک ہی کام رہ گیا ہے یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں۔

الزام تراشی بھی ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے، جس کا فائدہ الزام لگانے والے کو ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پانچویں موسم کے طور پر الزام تراشی کا موسم بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ عجائب خانے کی طرح چھٹا، ساتواں یا آٹھواں موسم بھی اگر دریافت ہوجائے تو کچھ بعید نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پیشہ ور رویے، ہمارا غم، غصہ، مایوسی، خود رحمی، حادثے اور انتقام وغیرہ سب کے سب اشتہاری روپ دھار چکے ہیں۔ جتنا شور مچائیں گے، اتنی مراعات ملیں گی۔ دور بھی کچھ ایسا ہے کہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کی حقیقت کیا ہے؟ کبھی ظالم مظلوم بن جاتا ہے تو کبھی مظلوم ظالم!

سچ تو یہ ہے کہ مظلومیت ایک دن جارحانہ رویہ اختیار کرلیتی ہے۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ بااختیار، دوسروں کے بے اثر اور سطحی سمجھ لیتا ہے ۔ طاقتور اگر اپنے رویوں کو اعتدال پر رکھے اور انسانوں کو کمتر سمجھنا چھوڑ دے تو کئی خودساختہ مسائل کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بحث مباحثوں اور بے تکے مکالموں میں اصلی کام دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ اسی لیے تو لفظوں کا پرفریب جال بنا جاتا ہے تاکہ اصلی مقصد فوت ہوجائے۔ ہم نے آج تک لفظوں کو منفی طور پر استعمال کیا ہے۔ ذاتی فائدے یا وقتی کامیابی حاصل کرنے کے لیے الفاظ کا سحر کارگر رہتا ہے۔

زندگی ہو یا مختلف شعبے انھیں شطرنج کی بازی سمجھ لیجیے۔ جس میں ہر لمحہ بے یقینی میں گزرتا ہے۔ کھلاڑی ہر وقت کوئی نئی چال چلنے کے لیے بے قرار۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔