سیاسی دنگل

جاوید قاضی  جمعرات 10 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

شیر شاہ سوری کا بنایا ہوا جی ٹی روڈ آج پھر اِک نئے عنوان کے ساتھ، ایک نیا دنگل لیے پھر سے پاکستان کی سیاست کا مرکز بنا ہے۔ خیر ایک فرق جو تھا وہ تو ختم ہوا جو کہ بینظیر کہتی تھیں’’لاہور کے وزیر اعظم اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق کیوں‘‘ اس بار جو اس دنگل کے فریقین ہیں لگ بھگ سب ہی لاہوری ہیں۔ خان صاحب بھی لاہوری تو میاں صاحب بھی! عدالت کے جج صاحبان بھی تو افواجِ پاکستان کے سپہ سا لار بھی۔ غرض کہ یوں کہیے سب تماشائی اور کھلاڑی آمنے سامنے۔

وہ جو سندھ میں ایک شکایت تھی کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے سپریم کورٹ کے چار جج اسی جی ٹی روڈ اور لاہور سے تھے اس لیے سندھ کے وزیراعظم کو پھانسی ہوئی ۔ وہ گِلے شکوے بھی دور ہوئے سب وزیراعظم اب ایک ہی صف میں آگئے اور صوبائیت کے فتوے ماضی کا قصہ بنے، مگر شاید ایسا نہ بھی ہو۔

میرے اس کالم کے چھپنے تک میاںصاحب اپنے سفر کا آغاز کرچکے ہوں گے، اسلام آبادسے لاہور جی ٹی روڈ کے ذریعے۔ وہ عوام کے پاس جا ناچاہتے ہیںان سے ملنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی JIT کے بعد عوام کی JIT سے۔ میں جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو طاہر القادری لاہور پہنچ چکے ہیں۔خطاب بھی کرچکے۔

میاں صاحب کے تیورکچھ بدلے بدلے سے ہیں۔ وہ اس وقت پارٹی کے اندر جارحانہ سوچ رکھنے والوں کے زیرِ اثر ہیں۔ چاہے گاڑی اْن کی چوہدری نثار ہی کیوں نہ چلاتے ہوں۔ اعجاز الحق کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو خواجوں نے مروا دیا۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ اْن کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اِس ملک کو چار سال کے بعد وزیرِ خارجہ مِلا لیکن وزیر خارجہ کہیں مصروفِ عمل ہیں داخلی معاملات میں۔ وزارت ِخارجہ یعنی اپنے دفتر میں شاید اْن کو بیٹھنا پسند نہیں۔ وزیرِ داخلہ نے میاں نوازشریف کو وہ تمام اطلاعات فراہم کردی ہیں جو سراغ رساں اداروں نے ارسال کی تھیں کہ جی ٹی روڑ پر جانا خطرے سے خالی نہیں۔ کل جو کور کمانڈر کی بیٹھک لگی تھی وہ ایک عہد دْہرانے میں ہی گزر گئی کہ افواجِ پاکستان باقی ماندہ اداروں کے ساتھ مل کے آئین اور قانون کی بالادستی اور پاسداری یقینی بنائیں گی۔ کہیں بھی کسی کونے میں یہ چہ میگوئیاں نہیں ہیں کہ شبِ خوں کی گھڑی آن پڑی ہے۔

اب میاں صاحب شہید ہوں تو کس طرح کہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کے لیے کوئی بھر پور سیاسی میدان چھوڑ سکیں۔ لوگوں کا اٹھنا لازمی ہے ورنہ نیب سے کوئی اچھی خبر آنے کی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ تذبذب جس میں میاں صاحب اور ان کی پارٹی گِھری ہوئی ہے۔

خان صاحب آج کل اسکینڈل کی نذر ہوئے ہیں اور فرار کا کوئی راستہ بھی نہیں۔ اس لیے کہ مسلم لیگ (ن) آنیوالے دنوں میں اس وکٹ پر بہت کھیلے گی۔ پاکستان کی سیاست کسی میدان ِ جنگ سے کم نہیں اور ابھی گھمسان کی جنگ باقی ہے۔

پختونوں کی تا ریخ کو اگر دیکھا جائے تو باچا خان سے لے کر آج تک وہ کبھی ٹِک کر ایک پارٹی کے ساتھ نہ رہے اور پرو پیگنڈہ ہمیشہ ان پر اثر انداز رہا۔ کھیلنے والوں نے بھی خاں صاحب کو بِگاڑنے کے لیے خوب طریقے آزمائے مگر اْن کے مدِ مقابِل کوئی مضبوط فریق نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سوائے مذہبی پارٹی کے لیڈر ہونے کے کچھ بھی نہیں، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی اب باقی نہیں سکڑ چکی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اِس دنگل میں کسی کونے میںچپ کھڑی ہے۔

وہ اگر بولے بھی تو اْس کی آواز کسی نگار خانے میں طوطی کی مانند ہے۔ کتنی تیزی سے بدلا ہے پاکستان اور کتنی تیزی سے بدل رہا ہے پاکستان مگر کیا اِس بدلے ہوئے پاکستان کی سمت درست ہے۔ کیونکہ اب کسی غلطی کی گنجائش بہت ہی کم ہے۔ جو بھی ماڈرن ریاست کے مروج اْصول ہیں اِس ملک کو ان اصولوں کی اشد ضرورت ہے۔

اس ریاست کو اب’’سیکیوریٹی اسٹیٹ‘‘ کے مفروضے سے باہر نکلنا ہو گا۔ اِس ملک کی نابالغ جمہوریت کو اب بالغ ہو نا ہی ہوگا۔

اوپر کی عدا لتیں قدرے بہتر ہیں مگر نچلی سطح پر عدالتیں فنکشنل نہیں۔ اِس لیے دیہی پاکستان میں’’پنچائیت‘‘ اور ’’جرگوں‘‘ کا راج ہے اور عورت کسی چوپائے یا مال مویشی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ آدھا پاکستان ہے یعنی مردوںکا پاکستان۔ پاکستان کا رْورَل ہو یا اَربن حصہ ہم نے نِسائیت کو کبھی اونچا رْتبہ دیا ہی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو جیسے صرف مرَدوں کی پارٹی ہو خواہ کتنی ہی مریم صفدر جیسی خواتین اْس پارٹی کے اندر شمولیت رکھتی ہوں۔ اور خاں صاحب کی PTI میں اگر چہ عورتوں کا تناسب زیادہ ہے جو کہ خوش آیند بات ہے مگر اْن کے جلسوں میںجس طرح کے حادثات ہوتے ہیںوہ قابل ذکر نہیں۔

خیر میاں صاحب عرش سے فرش پر تو آئے، لاہور میں دنگل تو مچا، حلقہ120 کے ووٹر ز کی لاٹری تو کْھلی، مگر اب یہ ایک جْدا پہلو ہے کہ مسلم لیگ (ن) یہ سیٹ کسی قیمت پر ہارنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا ئیں گے اِس سیٹ کو جیتنے کے لیے بلکہ چاہیں گے کہ اْسی روایت سے جیتیں جس طرح 2013ء میں جیتی تھی۔

اب آرٹیکل62-63 میں ترمیم کر کے بھی کیا کرنا ہے کیونکہ جو ہو نا تھا وہ تو ہو چْکا۔

پارلیمنٹ اپنی ترمیم کا اطلاق RETROSPECTIVE نہیں کر سکتی اگرا یسا ہو بھی جائے تو سپریم کورٹ اْس کو غیر آئینی قرار دیگی۔کیونکہ پارلیمنٹ کا یہ عمل، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے یعنی وزیر اعظم کی نا اہلی پر اثر انداز ہوگا۔ خاں صاحب کی پارٹی ہو یا میاں صاحب کی اس دفعہ دونوں نے بڑے ہی اوچھے ہتھکنڈے آزمائے ہیں۔ میڈیا اور ان کے ٹاک شوز بھی اْسی روایت کی نظر ہیں جو کہ ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے یعنی لڑائی جھگڑا اور غیر معیاری زبان کا استعمال۔

آیندہ کے دوچار ہفتے اور نیب کے فیصلے آنے تک، پاکستان کی سیاست بہت تیز رہے گی۔ یہ بھی امکانات ہیں کہ میاں صاحب ماحول میں کشیدگی پیدا کر نے کی کوشش کریں، اور اِس کشیدگی کا گھیراؤ کرنے کے لیے طاہر القادری اور دوسری حزبِ اختلاف تیاری پکڑ چکی ہے۔ میاں صاحب کے پاس ووٹرز پاور تو ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اِن کے پاس اسٹریٹ پاور بھی ہے۔

’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔