خودساختہ پارساؤں کی شعبدہ بازیاں

نصرت جاوید  منگل 12 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے ہر گز سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے نواز شریف کی رعونت کہا جائے یا محض اس بات کا خوف کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اپنی لاہور آمد سے کئی روز پہلے صدر زرداری نے اپنے اسٹاف کو ہدایت دی تھی کہ وہ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ سے معلوم کریں کہ وہ کس دن اور کس وقت رائے ونڈ آ کر ان سے عباس شریف کی بے وقت موت پر تعزیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ میری ٹھوس اطلاع کے مطابق اس وقت تک ایوان صدر کے لوگ چار سے زیادہ بار اس سلسلے میں رائے ونڈ والوں سے رابطہ کر چکے ہیں۔ میرے کالم لکھنے تک زرداری نواز ملاقات کا وقت اب بھی طے نہیں ہو سکا ہے۔

ہمارے جیسے روایتوں سے بھرے معاشرے میں نواز شریف کا تعزیت کے نام پر آنے والے مہمان سے نہ ملنا بڑی عجیب سی بات ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری یقیناً ایک دوسرے کے تخت یا تختہ والے سیاسی دشمن ہیں۔ مگر وہ انسان بھی تو ہیں اور ایک حوالے سے ایسے مراتب پر فائز بھی جہاں انھیں ہماری چند مثبت سماجی روایتوں کا پرچارک اور نگہبان نظر آنا چاہیے۔ مان لیتے ہیں کہ دونوں اقتدار کے سفاک کھیل میں الجھ کر پتھر دل ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر اقتدار کا سفاک کھیل ہی ان کے لیے سب کچھ ہے تو بھی ان دونوں کی اس وقت ملاقات انتہائی ضروری ہو چکی ہے۔ نہ ہوئی تو یہ دونوں بالآخر پچھتائیں گے۔

وہ دونوں نہ جانے کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ پاکستان کے بے کس و لاچار عوام کو ہماری تاریخ کا ایسا شاندار موقع ملنے ہی والا ہے جہاں وہ اپنے ووٹوں سے اقتدار کے کھیل رچانے والی اشرافیہ کو سزا اور جزا سے نواز سکیں گے۔ ہم سب بڑے خوش تھے کہ آیندہ انتخابات کرانے والے الیکشن کمیشن کا سربراہ ایک نیک نام شخص بنا ہے۔ اس شخص کے چیف الیکشن کمشنر ہوتے ہوئے ہمیں یہ امید بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھی کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ ہمیں ایسے عبوری وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ڈھونڈ دیں گے جو آیندہ ہونے والے انتخابات کو زیادہ سے زیادہ صاف شفاف اور غیر جانب دار عمل کے ذریعے ہوتے ہوئے دکھا سکیں۔

امیدوں سے بھرے اس موسم میں کینیڈا سے اچانک وہاں کا ایک شہری لاہور آ پہنچا۔ مینار پاکستان پر ایک بھاری بھر کم جلسہ کرنے کے بعد موصوف ایک کنٹینر میں بیٹھ کر اسلام آباد آ کر براجمان ہو گئے۔ ان کے دھرنے کو ٹیلی ویژن والوں نے بڑا ہی دھواں دھار تھیٹر بنا دیا۔ اس کی گھن گھرج سے لرز کر آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت کی سربراہی میں اپنی جماعت اور اس کے اتحادیوں کا ایک دس رکنی وفد قادری کنٹینر تک پہنچایا۔ ان صاحب نے حکومت سے وعدہ لیا کہ قومی اسمبلی 16 مارچ سے پہلے تحلیل کر دی جائے گی تا کہ آیندہ انتخابات دو نہیں تین ماہ کے عرصے میں مکمل ہو سکیں جس میں سے ایک پورا مہینہ یہ طے کرنے میں لگایا جائے گا کہ آیندہ انتخابات میں حصہ لینے والے امید وار صادق اور امین ہیں یا نہیں۔ سرکاری وفد سے یہ شرائط منوانے کے بعد اپنی جیت کا اعلان کرتے ہوئے کینیڈا کے یہ شہری لاہور واپس لوٹ گئے۔ وہاں جا کر انھیں سمجھ میں آئی کہ حکومتی وعدوں کے باوجود پاکستان کو 62 فی صد آبادی والے پنجاب کی صوبائی حکومت تو اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر بضد ہے۔ اس کی ضد مان لی جائے تو آیندہ انتخابات جون / جولائی 2013تک موخر ہو سکتے ہیں۔

کینیڈا سے آئے قادری ابھی تک دہری شہریت کے سبب خود تو آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں۔ مگر ہمارے انتخابی عمل کے سلسلے میں نا اہل اسی شخص نے آیندہ انتخابات کے ذریعے صادق اور امین لوگوں کو منتخب ایوانوں میں پہنچانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اگر وہ اپنے مشن کے بارے میں صدق دل کے ساتھ مخلص ہوتے تو اپنے انقلابی پیروکاروں کو پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں سڑکوں پر لا کر شہباز شریف کو اپنی اسمبلی جلد از جلد تحلیل کرنے پر مجبور کرتے۔15 فروری سے ’’انقلابی مارچوں‘‘ کے نام پر وہ شاید یہی کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو مرکزی حکومت کی طرح زچ کر بھی لیں تو بالآخر انتخابات تو الیکشن کمیشن نے ہی کرانے ہیں۔ اس موقعہ پر سپریم کورٹ جا کر اسے مشکوک بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ معاملہ چونکہ اب کورٹ میں ہے اس لیے اس موضوع پر خاموشی اختیار کرنا میرے جیسے قانون پسند شہری کی مجبوری ہے۔ مگر بالآخر فیصلہ جو بھی آئے الیکشن کمیشن کو انگریزی محاورے والا DENT پڑ چکا ہے۔

اس کا وقار‘ اعتبار اور ساکھ اب مجروح ہو چکے ہیں اور اس کی ساکھ پر لگے زخموں کو ہماری اس صدی کے سب سے بڑے صادق اور امین جناب ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان مسلسل اپنے بیانات اور تحریروں کے ذریعے گہرا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یہ اصول پسند اعوان جو ٹی وی پروگراموں کے ذریعے فروغ اسلام میں بھی مصروف رہا کرتے ہیں، ہر گز یاد نہیں رکھ پا رہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے ذریعے سینیٹ تک پہنچے ہیں اور موجودہ الیکشن کمیشن کا چنائو ان کی جماعت نے پارلیمان میں موجود دوسری جماعتوں سے باقاعدہ مشاورت کے ذریعے کیا تھا۔ فرض کیا انھیں اس چنائو میں گڑ بڑ نظر آ گئی ہے تو اس گڑ بڑ کی اہم فریق پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی عطا کردہ سینیٹ کی نشست سے استعفٰی کیوں نہیں دے ڈالتے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں کے شعبدہ باز پارسا گفتار اور صرف گفتار کے ذریعے صادق اور امین ڈھونڈا کرتے ہیں۔ بابر اعوان اور قادری جیسے ’’طلب گاروں‘‘ کے ہوتے ہوئے ’’صادق‘‘ نمودار ہو کر شرمندہ ہی ہوں گے۔ نواز شریف کو آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے ہو کر آیندہ انتخابات کو وقت پر کرانے کا وعدہ کرنا ہو گا۔ وہ اپنی انائوں کے اسیر رہے تو مستقبل صرف خود ساختہ پارسائوں اور ان کی شعبدہ بازیوں کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔