- جوبائیڈن کا پہلادن؛مسلمانوں پرسفری پابندی کےخاتمےسمیت 15 صدارتی حکم نامے جاری
- آج اور کل سرد موسم کی ’’چھٹی‘‘ درجہ حرارت بڑھے گا
- بار بار پیشاب آنے کی تکلیف سے چھٹکارا کیسے؟
- کورونا لاک ڈاؤن کے باوجود فضائی آلودگی میں متوقع کمی نہیں ہو سکی
- کورونا وائرس کی نئی قسم پہلے سے زیادہ خطرناک؟
- بورڈ نے فرنچائزز کو سبز باغ دکھا کر بہلا دیا
- محمد حفیظ نے فکسرزکی ٹیم میں واپسی کی مخالفت کردی
- ہوا سے بخارات جذب کرکے تازہ پانی بنانے والا اسفنج
- کیا بجلی کے دماغی جھٹکے شدید ڈپریشن کا علاج بن سکتے ہیں؟
- پروگرامرز نے بٹ کوائن مائننگ کمپیوٹر کو مرغی خانے کا ہیٹر بنا دیا
- کورونا میں مبتلا برطانوی پائلٹ 243 دن اسپتال میں زیرِعلاج رہنے کے بعد شفایاب
- جیسا کپتان، ویسی ٹیم
- بھارت کے گاؤں کا لڑکا اوررکشہ ڈرائیور کا بیٹا ہیرو بن گئے
- پولیس کے مزید 199 افسر و جوان کورونا وائرس کے شکار
- کورونا ویکسین مفت، سب کو فراہمی آسان نہیں، ڈاکٹر فیصل
- ٹانک، نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2سیکیورٹی اہلکار شہید
- کوئٹہ: حیات بلوچ قتل کیس میں ایف سی اہلکار کو سزائے موت
- کورونا نے مزید 54 زندگیاں نگل لیں، 2 ہزار سے زائد مثبت کیسز رپورٹ
- بائیڈن کے صدر بننے سے امریکا کی 230 سالہ تاریخ میں کیا کیا پہلی بار ہوا !
- وفاقی حکومت نے قومی بچت اسکیموں کی شرحِ منافع میں اضافہ کردیا
شمسی عینک؛ موبائل فون اور دوسرے برقی آلات ری چارج کرے گی

فوٹو : فائل
برلن: جرمن سائنس دانوں نے ایسی عینک تیار کرلی ہے جس کے عدسے سولر سیلز کا کام دیتے ہیں۔ ان عدسوں کی مدد سے حاصل ہونے والی بجلی موبائل فون کو ری چارج کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ سولر سیل ایک مائیکروپروسیسر اور دو ڈسپلے اسکرینز کو برقی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اتنی بجلی بچ جاتی ہے جس سے سیل فون ری چارج کیا جاسکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کے مزید استعمالات سامنے آئیں گے۔ مثلاً کھڑکیوں کے ایسے شیشے بنائے جاسکیں گے جو نامیاتی سولر سیل کا بھی کام دیں گے۔ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے نامیاتی سولر سیل اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ یہ شفاف اور کم وزن ہوتے ہیں، اور انھیں مختلف جسامتوں اور رنگوں میں بنایا جاسکتا ہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کے برعکس سلیکان کے بنے ہوئے سولر سیلز وزنی اور غیرلچک دار ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا استعمال بہت محدود ہے۔
یہ منفرد عینک جرمنی کے کارلسروہے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ سائنس دانوں کی ایجاد ہے۔ اسے آزمائشی طور پر صرف یہ دیکھنے کے لیے بنایا گیا ہے کہ نامیاتی سولر سیلز کو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کے آئی ٹی میں اورگینک فوٹووولٹائکس گروپ کے سربراہ ڈاکٹر الیگزینڈر کولزمین کہتے ہیں کہ ہم شمسی توانائی کو اس سطح پر لے آئے ہیں جہاں دوسری ٹیکنالوجی ناکام ہوجاتی ہے۔
جرمن محققین کی تیارکردہ سولر عینک کمرے کے اندر بھی کام کرتی ہے جہاں روشنی کی کم از کم شدت 500 لکس ہو۔ گھر کے اندرونی ماحول میں عینک کا ہر عدسہ 200 مائیکرو واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جو چھوٹے موٹے برقی آلات جیسے آلۂ سماعت وغیرہ کو آپریٹ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہر شمسی عدسے (سولر لینس) کی موٹائی 1.6 ملی میٹر ( 0.06 انچ) اور وزن محض 6 گرام ہے۔ روایتی عدسوں کا وزن بھی اتنا ہی ہوتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نامیاتی شمسی سیل (آرگینک سولر سیلز) اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ یہ لچک دار ہیں، انہیں کوئی بھی رنگ دیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی شکل اور جسامت میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ ان عدسوں کی مدد سے عمارتوں کو بجلی کے پلانٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ فلک بوس عمارتوں میں سیکڑوں ہزاروں کھڑکیاں ہوتی ہیں۔ اگر ان سب میں اس سولر سیل ٹیکنالوجی سے بنے شیشے لگادیئے جائیں تو بڑی مقدار میں بجلی پیدا ہوگی اور کھڑکیوں کے اوپر چھجے بنانے کی لاگت کی بھی بچت ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔