کراچی لہو لہان ہے

نسیم انجم  منگل 12 فروری 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

موجودہ حالات میں سپریم کورٹ کو یقیناً یہی بیان دینا چاہیے تھا کہ سندھ حکومت اشتہار دے دے کہ شہری اپنے رسک پر گھر سے نکلیں، بچوں کو امام ضامن باندھ کر اسکول بھیجا جائے، شہر میں 22 ہزار سے زائد ملزم گھوم رہے ہیں تو کیا ڈھائی سو تفتیشی افسر کھوج لگاکر انھیں گرفتار کر سکیں گے؟ فی زمانہ حالات بدترین ہو چکے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو باہر بھیجتے ہوئے ڈرتی ہیں، بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، اسکول جاتے ہوں یا دفاتر، ہر لمحہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ نجانے کیا ہو؟ ٹائر پھٹنے کی آواز ہو یا پٹاخے پھٹنے کی، یا بھاری سامان نیچے گرنے کی، بس یوں ہی لگتا ہے کہ کہیں دھماکا ہوا ہے، فائرنگ ہوئی ہے، کسی کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھ کر یا فائرنگ کی آواز سن کر لوگ دوڑنا بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، بھگدڑ مچ جاتی ہے، ایسا ہی حال سڑکوں پر ہوتا ہے، ادھر فائرنگ کی آوازیں، ادھر گاڑیاں مختلف اور غلط راستوں پر دوڑنے لگیں، جائے پناہ کی تلاش میں ہر شخص سرگرداں نظر آتا ہے، اب نہ مہنگائی کا رونا ہے اور نہ بے روزگاری کا اور نہ علاج و معالجے کے لیے معالج کی تلاش اور نہ اسکولوں میں کورس پورا ہونے کی پرواہ۔ اس لیے کہ جس علاقے میں بچہ زیر تعلیم ہے وہاں تو حالات خراب ہیں، فورسز نے علاقے کو گھیرا ہوا ہے، دہشت گرد قدم قدم پر موجود ہیں، کب بچے کو اغوا کر لیں اور کب موت کے گھاٹ اتار دیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے، اتنے سنگین حالات میں اب پرواہ ہے تو اس کی کہ زندگی بچالی جائے۔

گیس اور بجلی کے مسائل کو بھی بھلا دیا گیا ہے، اب کے ای ایس سی کے دفاتر پر نہ پتھراؤ ہوتا ہے اور نہ گھیراؤ کیا جاتا ہے، بس اب تو جس قدر ممکن ہو گھر پہنچا جائے یا گھر سے باہر ہی نہ نکلا جائے، لیکن ضرورتاً نکلنا پڑتا ہے، گھروں سے باہر جائے بنا کام نہیں بنتا، بھوکا پیٹ کچھ تقاضا کرتا ہے، ضروریات زندگی کی اشیا خریدنے کے لیے دکانوں اور بازاروں کا رخ کرنا ہی پڑتا ہے، ہر شخص الجھنوں اور تکالیف کا شکار ہے، باہر جاتا ہے تو موت اس کا استقبال کرتی ہے، مرنے والے کو اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے لیے اس کے دوست احباب قبرستان کا رخ کرتے ہیں، لیکن میت لے جانے والوں پر بھی فائرنگ ہو جاتی ہے، انسان کس طرح قاتلوں سے اپنی جان بچا سکے؟ معصوم شہری اکثر یہ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ آخر فورسز قاتلوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتیں؟ ایسا لائحہ عمل کیوں نہیں بناتیں جس کے تحت عوام کو تحفظ نصیب ہو؟ پولیس اور رینجرز کے ہوتے ہوئے معصوم بچے بڑی آسانی سے اغوا کر لیے جاتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔

پچھلے ہفتے ہی کی بات ہے کہ جب جمعرات بازار میں خریداری کرنے والی ایک ضعیفہ کی نواسی کو کمال ہوشیاری سے کپڑا فروش نے اڑا لیا۔ خاتون نے ادھر کپڑا دیکھنا شروع کیا، ادھر بچی غائب۔ اس بچی کا نام نوشابہ تھا۔ نوشابہ بے حد ذہین بچی ہے، اچھی صورت اور نیک سیرت، اس کی ماں گھروں میں کام کرتی ہے اور باپ چنگچی چلاتا ہے، یہ معصوم پھول سی 7 سالہ بچی والدین کی غیر موجودگی میں اپنی چھوٹی بہنوں کو سنبھالتی ہے، گھر کا پانی بھرتی ہے، صفائی کرتی ہے، گھروں سے برف لے جا کر کولر میں ڈالتی ہے، بے حد حاضر جواب اور ہنس مکھ، یہ غریب عورت جس کی پانچ بچیاں ہیں، محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے، شرافت اور دیانت داری اس کا شعار ہے، رزق حلال پر یقین رکھتی ہے۔ تو اس بچی نوشابہ کے ساتھ یہ ہوا کہ پاس بیٹھے ہوئے اشخاص نے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور بہت تیزی کے ساتھ اس کے پیر باندھے اور کپڑوں کے تھان کے نیچے دبا دیا۔

بچی کی نانی نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو نوشابہ غائب تھی، وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی، اس نے دکاندار سے پوچھا، جواب میں اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا، بے ساختہ نانی کے منہ سے یہ جملہ نکلا، میری لڑکی تم نے چھپائی ہے نکالو، اس کے ساتھ والے دکاندار نے کہا یہ لو گز اس کی پٹائی کرو، قبول دے گا، شور سن کر دو چار اور لوگ بھی آگئے۔ اسی اثناء میں کپڑوں کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور گٹھڑیوں کے بیچ سے بچی کو نکال کر اس عورت کے حوالے کر دیا۔ پکڑو اپنا بچہ۔ گویا اس نے احسان کیا۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے اسے مارا پیٹا نہیں نہ پولیس کے حوالے کیا۔

بچی کی حالت خراب تھی، بڑی مشکل میں اسے ہوش آیا اور اس نے آنکھیں کھولیں، اس دن کے بعد سے وہ آج تک خوف و ہراس میں مبتلا ہے، بستر پر پڑی ہے۔ خوش نصیب تھا وہ خاندان جن کی بیٹی اس قدر آسانی سے مل گئی ورنہ تو ان دکانداروں نے اپنا کام دکھا ہی دیا تھا۔ تخریب کاری اور جرائم کا کرنا بے حد آسان ہو گیا ہے چونکہ مجرم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کا بال بیکا نہیں کیا جائے گا وہ اپنے بڑوں کی سرپرستی میں ہیں اور بڑوں کے تعلقات اوپر تک ہیں، حال ہی میں ایک نہیں کئی ٹارگٹ کلر پکڑے گئے، لیکن انھیں کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں رہا کر دیا جائے گا، مزید جرائم کے لیے۔ ایسا ہوتا ہے ہمارے یہاں۔

معصوم لوگوں کے برعکس صاحب بصیرت، حالات کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ ہماری فورسز اس قدر بے بس کیوں ہیں، مجرموں کو کیوں آزاد کر دیا جاتا ہے اور معصوم لوگ ہر روز کیوں مارے جا رہے ہیں، انھیں المناک واقعات و حالات کا اچھی طرح علم ہے، لیکن افسوس کہ وہ بھی بے بس اور بے اختیار ہیں۔ ساتھ میں ایک دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ بے حسی عروج پر پہنچ چکی ہے، کسی کو کسی کی تکلیف اور غم سے مطلب نہیں ہے، احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ اور اس کا گھرانہ آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ اگر اسی وقت عوام نوٹس لیتی جب ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے شروع ہوئے تھے، پہلے قتل پر سب متحد ہو جاتے اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹاتے اور اپنا چین و آرام گنوا کر اپنے ملک اور اپنے شہر سے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالتے، اپنی اپنی جماعت کے کارکن تحفظ کے لیے شہر کی مختلف جگہوں، شاہراہوں، گلیوں میں پھیل جاتے تو آج نہ کراچی اور پشاور و کوئٹہ مقتل بنتا اور نہ گھر گھر سے لاشیں اٹھتیں۔ قانون کے رکھوالوں کو بھی دن دہاڑے قتل کیا جاتا ہے، افسوس کہ اپنے پیٹی بھائیوں کی بھی پرواہ نہیں، شہر کا نظم و نسق اور اہم ترین ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں، اپنی ذمے داریوں کو فراموش کر دیا گیا ہے، شاید ان کی یہ مجبوری ہو۔

سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ تقریباً 4 ماہ کا عرصہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو گزر چکا ہے، لیکن انصاف کے طالب ٹکریں کھاتے پھر رہے ہیں، مگر انصاف ہے کہ ملتا نہیں، کتنی لاشیں ایسی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی ہے اور اب ورثاء کی اجازت سے ان کی اجتماعی نماز جنازہ اور اجتماعی تدفین عمل میں لائی جائے گی۔ سانحہ بلدیہ بھی بھتہ خوری کے نتیجے میں ہی پیش آیا تھا، لیکن یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا کہ یہ شارٹ سرکٹ تھا یا تخریب کاری، لیکن باہر کے دروازے بند کروانے والے کون تھے؟ انھیں اپنا مال و زر عزیز تھا، انسان نہیں۔

ہر روز 15/10 لوگوں کی ہلاکت ہوتی ہے، بے شمار تاجر اور صحافیوں کو مارا گیا، تاجر حضرات کو محض اس لیے اغوا اور پھر موت کے گھاٹ اتارا گیا کہ معاملہ بھتے کی ادائیگی کا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ وفاق کراچی کے کھنڈر بن جانے پر کردار ادا کرے، کراچی لہو لہان ہے، حالات بدتر ہو گئے، شہریوں کا تحفظ نہیں کر سکتے تو آئین سے آرٹیکل 9 کو نکال دیں، دیکھیں ہوتا کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔