مونیکا لیونسکی بمقابلہ گلالئی اسکینڈل

میاں عمران احمد  جمعـء 11 اگست 2017
 انسان کی کروڑوں سال پرانی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماضی کے قصے مستقبل کے فیصلوں کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

انسان کی کروڑوں سال پرانی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماضی کے قصے مستقبل کے فیصلوں کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

قصوروار مونیکا لیونسکی تھی۔ اُس سے غلطی ہوئی تھی، وہ وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ کرنے آئی تھی۔ اُس کا باپ انکالوجسٹ تھا اور ماں کتابیں لکھتی تھی۔ باپ نے سفارش کروائی اور یہ نومبر 1995ء میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کے پاس بغیر تنخواہ کے انٹرن شپ کرنے لگی۔ وائٹ ہاؤس میں اُس کی ملاقات امریکی صدر بِل کلنٹن سے ہوگئی۔ مونیکا کی عمر اُس وقت 22 اور بِل کلنٹن کی عمر 49 برس تھی۔ مونیکا چند دنوں میں امریکی صدر کے اتنا قریب ہوگئی کہ پینٹاگون نے مونیکا کی امریکی صدر سے قربت کو خطرناک قرار دیا اور اُس کا تبادلہ وائٹ ہاؤس سے پینٹاگون کردیا۔

پینٹا گون میں اُس نے بِل کلنٹن کے ساتھ اپنے افئیر کی مکمل کہانی اپنی ساتھی لینڈا ٹرپ کو سنادی۔ لینڈا نے مونیکا کی ساری گفتگو چپکے سے ریکارڈ کرلی۔ جنوری 1998ء میں جب بِل کلنٹن کی مونیکا کے ساتھ افئیر کی کہانی منظرِ عام پر آئی تو امریکی صدر نے نیشنل ٹی وی پر آکر بیان دیا کہ،

’’میرا مونیکا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی میں نے کبھی مونیکا کے ساتھ کوئی جسمانی تعلق قائم رکھا ہے۔ مجھ پر لگنے والے الزام جھوٹے ہیں اور میں سختی سے اِن کی تردید کرتا ہوں۔‘‘

بِل کلنٹن کا نیشنل ٹی وی پر یہ بیان اُن کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ اُنہی دنوں امریکی صدر Paula Jones جنسی طور ہر ہراساں کرنے کا کیس بھگت رہے تھے۔ لینڈا نے مونیکا کی ٹیپ ریکارڈنگ Paula James کے وکیل کے سپرد کردی۔ وکیل نے ریکارڈنگ عدالت میں پیش کی تو بِل کلنٹن نے الزامات کو ماننے سے انکار کردیا اور مونیکا کی کردار کشی شروع کردی۔ کلنٹن کے رویے نے مونیکا کو انتقام لینے پر مجبور کردیا اور اُس نے ایسا ثبوت عدالت میں پیش کردیا جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا۔ اِس نے عدالت میں اپنا نیلے رنگ کا لباس پیش کیا جس پر موجود شواہد نے کلنٹن اور مونیکا کی قربت ثابت کردی۔ مونیکا نے بتایا کہ انہوں نے وہ نیلا لباس تین سال گزر جانے کے باوجود اُسی حالت میں رکھا ہے۔ اُس لباس کو جب لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا تو مونیکا کے الزام کی تصدیق ہوگئی اور یوں بِل کلنٹن پر مونیکا سے ناجائز تعلقات رکھنے کا الزام ثابت ہوگیا۔

امریکی عوام نے یہ سب ثابت ہونے کے بعد بِل کلنٹن سے استعفٰی مانگ لیا لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اِس استعفے کے مطالبے کی وجہ کلنٹن کا مونیکا کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنا نہیں بلکہ جھوٹ بولنا تھا۔ امریکی عوام کا موقف تھا کہ امریکہ ایک سیکس فری سوسائٹی ہے، اگر بِل کلنٹن نے مونیکا کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کیے ہیں تو یہ اُن کا ذاتی فعل ہے اور امریکی عوام کو اُن کے اِس فعل کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ امریکی عوام کو تو اِس بات پر اعتراض ہے کہ امریکی صدر نے امریکی عوام سے جھوٹ کیوں بولا؟ اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی جھوٹا شخص امریکہ کا صدر بننے کا اہل نہیں ہوسکتا لہذا بِل کلنٹن فوری صدارت سے مستعفی ہوجائیں تاکہ امریکی عوام کسی ایسے شخص کو وزیرِاعظم بنا سکیں جو سچ بولتا ہو۔

اگرچہ بل کلنٹن نے مواخذے کے باوجود اپنی میعاد پوری کی لیکن اِس واقعہ کے بعد کلنٹن امریکی عوام کے دلوں میں دوبارہ جگہ نہ بناسکے۔ اِس واقعے نے جہاں بِل کلنٹن کا سیاسی کیرئیر ختم کردیا وہیں اِس نے مونیکا لیونسکی کو شہرت کی اُس معراج پر پہنچا دیا جس کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اگرچہ غلطی مونیکا سے ہوئی تھی لیکن یہ غلطی اُس کے لیے الہٰ دین کا چراغ بن گئی۔ کیونکہ جس دن سے مونیکا اور بِل کلنٹن کے اسکینڈل کی ٹیپ منظرِ عام پر آئی مونیکا نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔

درحقیقت مونیکا کا نام برانڈ بن گیا، اُس کا آٹو گراف امریکی نوجوانوں کے لیے فخر کی علامت بن گیا، اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پوری دنیا گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھنے لگی۔ دنیا کے ساتوں براعظموں میں موجود لوگ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مونیکا کیا کھاتی ہے؟ مونیکا کیا پہنتی ہے؟ مونیکا کو کیا پسند ہے؟ مونیکا کس طرح زندگی گزارتی ہے؟ مونیکا کی پسندیدہ لپ اسٹک کونسی ہے؟ مونیکا تفریح کے لیے کہاں جانا پسند کرتی ہے؟ مونیکا شادی کے لیے کس طرح کا شوہر چاہتی ہے؟ مونیکا کونسے برانڈ کی جیولری پہنتی ہے؟ مونیکا کب سوتی ہے؟ کب جاگتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ، اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بِل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے اسکینڈل کا نام لونسیکی اسکینڈل رکھا گیا، اور اِس اسکینڈل کے نام پر ویمن ہینڈ بیگز کا نیا برانڈ بھی متعارف کروایا گیا جس کا نام لونسیکی بیگز رکھا گیا۔

مونیکا نے فٹنس کے مشورے دینے کے کئی اشتہار سائن کیے اور امریکہ کی صف اول کی ٹیلی ویژن میزبان بن گئی۔ مارچ 1999ء میں Monika Story کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی جس میں مونیکا کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی ذکر کیا گیا اور اُس میں ایک موضوع بِل کلنٹن کے نام سے بھی شامل تھا۔ مونیکا نے اُس کتاب کی رائیلٹی کے عوض 5 لاکھ امریکی ڈالر وصول کیے۔ اِس کے علاوہ مونیکا کی یہ ساری کہانی ٹائم میگزین کی کور اسٹوری بھی بنی۔ 3 مارچ 1999ء کو Barbara Walters نے مونیکا لونسیکی کا ٹی وی انٹرویو کیا اور امریکی سروے کے مطابق وہ انٹرویو سات (7) کروڑ امریکیوں نے دیکھا جو آج تک کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ مونیکا نے اِس شو کی مد میں دس (10) لاکھ امریکی ڈالر بطور رائیلٹی وصول کیے۔

لیکن پھر یہ شہرت مونیکا کے لئے عذاب بن گئی۔ وہ جہاں بھی جاتی لوگ اُسے ایک مخصوص نظر سے دیکھتے اور اُس کے بارے میں منفی رائے قائم کرتے۔ بدنامی کی یہ شہرت اُسے اب ذلت لگنے لگی تھی، اُس نے گھر سے نکلنا بند کردیا کیونکہ وہ احساسِ شرمندگی کا شکار ہوگئی۔ جس کا اظہار اُس نے کئی مرتبہ انٹرویوز اور عوامی مقامات پر بھی کیا۔ ایک مرتبہ اُس نے یہ کہہ کر آٹو گراف دینے سے انکار کردیا کہ،

’’میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا جس کی بناء پر آپ مجھ سے آٹو گراف لے رہے ہیں بلکہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کہ قابلِ مذمت اور باعثِ شرمندگی ہے اور آپ کو اِس سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘‘

لیکن لوگوں نے اُس کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑا۔ لہذا اُس نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور برطانیہ کے لندن اسکول آف اکنامکس میں سوشل سائیکالوجی میں داخلہ لے لیا اور اب ایک گمنام انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اِس کہانی کا آپ سے اور پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ دراصل مونیکا لیونسکی اور بِل کلنٹن کی کہانی آج کی پاکستانی سیاست میں اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جو الزامات عائشہ گلالئی نے عمران خان پر لگائے ہیں اور جس طرح سے عمران خان نے اِن الزامات کی سرِعام تردید کی ہے، یہ سارے معاملات لیونسکی اسکینڈل سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔

یکم اگست 2017ء کو عائشہ گلالئی نے عمران خان پر اکتوبر 2013ء سے غیر اخلاقی ٹیکسٹ میسجز کرنے اور ذہنی اذیت دینے کا الزام لگا کر پاکستان تحریک انصاف کو خیرآباد کہہ دیا۔ عمران خان نے اِس الزام پر ردِعمل دیتے ہوئے عائشہ گلالئی کے الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا، جبکہ عائشہ گلالئی نے اِس پورے معاملے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔ اِن حالات کے بعد کہانی کے حوالے سے پایا جانے والا تجسس مزید بڑھ گیا۔ عائشہ گلالئی کا دعویٰ ہے کہ اُن کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں جبکہ عمران خان ابھی تک اُن ثبوتوں سے انکاری ہیں۔ عائشہ گلالئی کے الزمات درست ہیں یا نہیں اِس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا لیکن اہم بات یہ ہے کہ اگر الزمات درست ثابت ہوئے تو یہ اسکینڈل عمران خان کی سیاسی زندگی کا آخری اسکینڈل ہوگا اور اُس کے بعد خان صاحب پوری دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے کیونکہ اُس اسکینڈل کا مسئلہ عمران خان کا گلالئی کو میسجز کرنا نہیں بلکہ عوام سے جھوٹ بولنا ہے۔

اب میں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب آتا ہوں اور وہ یہ کہ کیا عائشہ گلالئی یہ سب شہرت پانے کے لئے کر رہی ہیں یا حقیقت میں وہ عمران خان کو قصور وار سمجھتی ہیں؟ کیا عائشہ گلالئی حقیقت میں 2013ء سے اُس ذلت اور ذہنی دباؤ کا شکار تھیں یا یہ سب پروپیگنڈا مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ہے؟ کیا عائشہ گلالئی واقعی پختون روایتوں کی پاسدار اور امین ہیں یا صرف پختونوں کے نام کو ڈھال بنا کر کسی عالمی سازش کے ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب عائشہ گلالئی کو ہر صورت دینا ہوگا کیونکہ اگر عائشہ گلالئی سچی ہیں تو مجھ سمیت پاکستان کی بائیس (22) کروڑ عوام عائشہ گلالئی کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن اگر عائشہ گلالئی یہ سب شہرت اور دولت حاصل کرنے کے لئے کر رہی ہیں تو اُنہیں مونیکا لیونسکی کے یہ الفاظ ضرور یاد رکھنے چاہیے کہ،

’’میں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا جس کی بنا پر آپ مجھ سے آٹو گراف لے رہے ہیں بلکہ میں نے وہ کام کیا ہے جوکہ قابلِ مذمت اور باعثِ شرمندگی ہے اور آپ کو اِس سے سبق سیکھنا چاہیے۔‘‘

کیونکہ انسان کی کروڑوں سال پرانی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماضی کے قصے مستقبل کے فیصلوں کو صحیح سمت دینے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور جو لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اُن کا انجام آنے والی نسلوں کے لیے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اِس لیے میری عائشہ گلالئی سے گزارش ہے کہ آپ ایسی کہانی مت لکھیے جو آنے والی نسلوں کو نہیں سنائی جاسکے۔

کیا آپ اِن دونوں اسکینڈلز کے تقابل کو ٹھیک سمجھتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔