- جسٹس بابر ستار پر الزامات ہیں تو کلیئر کریں، فیصل واوڈا
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
غلطیاں کرنے والے روبوٹس
ویانا: امریکا اور آسٹریا میں مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کے ماہرین اب ایسے روبوٹ بنا رہے ہیں جو وقتاً فوقتاً غلطیاں کرتے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے انہیں اس انداز سے بہتر بنایا جاتا ہے کہ وہ غلطیاں کرتے رہیں۔
ایک نئے شعبے ’’سوشل روبوٹکس‘‘ (سماجی روبوٹکس) کے تحت امریکا اور آسٹریا میں مختلف اداروں کے تعاون و اشتراک سے ایک ایسے منصوبے پر کام جاری ہے جس کا مقصد غلطیاں کرنے والے روبوٹ ہی تیار کرنا ہے۔ ان اداروں میں برسٹل روبوٹکس لیبارٹری (برسٹل، برطانیہ)، یونیورسٹی آف سالزبرگ (آسٹریا) اور آسٹرین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ویانا، آسٹریا) کے ماہرین شریک ہیں۔
عام طور پر انجینئر اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین یہ کوشش کرتے ہیں کہ ایسے کمپیوٹر پروگرام لکھیں جنہیں استعمال کرنے والے روبوٹس کوئی غلطی نہ کریں لیکن اس منصوبے کا مقصد کچھ اور ہے: روبوٹس کے لیے ایسے کمپیوٹر پروگرام لکھے جائیں جو مکمل طور پر درست نہ ہوں بلکہ ان میں غلطی کا امکان جانتے بوجھتے ہوئے شامل رکھا جائے۔ اپنا مخصوص کام انجام دیتے وقت جب کوئی روبوٹ کسی قسم کی غلطی کرتا ہے تو اس کا مالک (انسان) غلطی کی ساری تفصیلات ماہرین کو بتاتا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے روبوٹ کے پروگرام میں جلد از جلد تبدیلی کی جاتی ہے۔
ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا جا رہا ہے کہ خامی سے پاک روبوٹ تیار کرنے میں زیادہ وقت لگانے سے کہیں بہتر ہے کہ اوسط سے کچھ زیادہ کارکردگی والے سافٹ ویئر کے حامل ذہین روبوٹ تیار کرکے انسانوں کے حوالے کردیئے جائیں۔ جب وہ انسانوں کے لیے کوئی کام کریں گے اور غلطیاں کریں گے تو انہیں مدنظر رکھ کر پروگرام میں تبدیلیاں کر دی جائیں۔ اس طرح تھوڑا تھوڑا کرتے ہوئے ان روبوٹس کو خوب سے خوب تر کیا جاتا رہے۔
ریسرچ جرنل ’’فرنٹیئرز ان روبوٹکس اینڈ اے آئی‘‘ میں شائع شدہ اس تحقیق سے دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ گاہے گاہے غلطیاں کرنے والے روبوٹس کو اس تحقیق میں شریک رضاکاروں نے زیادہ پسند کیا۔ امید ہے کہ اس طرح بتدریج ذہین ہونے والے روبوٹس نہ صرف بہتر ہوں گے بلکہ انسانوں کےلیے زیادہ قابلِ قبول بھی ہوں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔