پاک فوج کے میجر اور 4 جوانوں کی شہادت

ایڈیٹوریل  جمعـء 11 اگست 2017
ذرا سوچیے کہ اگر دہشت گرد 14اگست والے دن کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو کتنا نقصان ہوتا۔ فوٹو: فائل

ذرا سوچیے کہ اگر دہشت گرد 14اگست والے دن کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو کتنا نقصان ہوتا۔ فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا کے ضلع اپر دیر کے صدر مقام تیمر گرہ کے علاقے شیروٹ کئی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران پاک فوج کے میجر سمیت 4 اہلکار شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شیروٹ کئی میں انٹیلی جنس بنیادوں پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو تین میں سے ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اْڑا لیا جس کے نتیجے میں آپریشن کی سربراہی کرنے والے میجر علی سلمان، حوالدار غلام نذیر، حوالدار اختر اور سپاہی عبدالکریم شہید ہوگئے جب کہ دوسرے دہشت گرد کو فائرنگ کرکے ہلاک اور ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید میجر علی سلمان کا تعلق پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے سے تھا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فوجی افسر اور اہلکاروں کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ افواج پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اور امن وامان کے قیام کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں، پاکستان کے بہادر فوجی جوانوں پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے اب ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے بلکہ جوانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے ارادے کا مظہر ہے۔

ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے بھی واقعہ پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔علاقے کی انتظامیہ کے مطابق دہشت گرد زلزلے سے متاثرہ ایک خالی مکان میں چھپے ہوئے تھے جو افغانستان سے براستہ چترال پہنچے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن ردالفساد میں تمام ادارے مل کر دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں، اپردیر میں پناہ لینے والے دہشت گردوں نے یوم آزادی پر دہشت گردی کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے مثال اور لازوال قربانیاں دی ہیں لیکن اس سب کے باوجود سیاسی اور عسکری قیادت اس عزم کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ کسی طور بھی دہشت گردوں کے حملوں سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹیں گے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔

اپردیر میں ہونے والے آپریشن سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں اب بھی دہشت گرد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو آئے روز سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھرپور کارروائیوں کے باوجود دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں ہو رہا جس کی وجوہات میں سے ایک افغانستان سے ان کی آمد ہے۔

پاکستان بارہا افغانستان سے یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کارروائیاں کی جائیں لیکن افغانستان پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے اس کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے اور کسی بھی دہشت گردی کا الزام اس پر لگانے سے نہیں چوکتا۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا نیٹ ورک کافی مضبوط ہے جسے بیرونی امداد بھی حاصل ہے لہٰذا اس عفریت سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ سول اور عسکری ادارے ایک پلیٹ فارم سے اس کے خلاف کارروائی کریں۔

ذرا سوچیے کہ اگر دہشت گرد 14اگست والے دن کارروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو کتنا نقصان ہوتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گراس روٹ لیول پر بلدیاتی اداروں کو بھی اس جنگ میں شریک کیا جانا ناگزیر ہے جب تک نچلی سطح پر عوام کا تعاون حاصل نہ ہو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قانون کے شکنجے میں لانا ایک مشکل امر ہے۔ عوام کو متحرک کرنے میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں اگر یہ جماعتیں عوام میں یہ شعور بیدار کریں کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور اس کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ان کا متحد اور یکجان ہونا لازم ہے تو امید ہے کہ معاشرے میں چھپے ہوئے ان بے چہرہ اور ناقابل شناخت وطن دشمنوں کی نشاندہی اور انھیں انجام تک پہنچانے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔