- سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، نمایاں شخصیات کو سزائیں
- گھروں میں وارداتیں کرنے اور قتل میں ملوث ’’رانی‘‘ پولیس تحویل سے فرار
- بیٹے کے اغوا کا ڈراما رچانے والے باپ کا بھانڈا پھوٹ گیا
- براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات کےلیے سابق جج کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی کے قیام کی منظوری
- جوبائیڈن کی حلف برداری کی سیکیورٹی سے دو مشکوک فوجی ہٹا دیے گئے
- سرحد پار تجارت کیلیے اقدامات؛ پاکستان کی رینکنگ میں31 درجہ بہتری
- ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے نئی پی ایچ ڈی پالیسی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا
- ہائی وے پرآئل ٹینکروں کا خوفناک تصادم، ہزاروں لیٹرتیل میں آگ لگ گئی
- بھارت میں 13 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل
- فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم کے 4400 متاثرین کو 14 ارب روپے واپس مل گئے، پاک فضائیہ
- جرمنی میں کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت
- زین آفندی قتل کیس، عینی شاہد نے ملزمان کو شناخت کرلیا
- بہادرآباد میں پولیس مقابلہ؛ وائٹ کرولا گینگ کے 7 ملزمان گرفتار
- روپے کے مدمقابل ڈالر کی قدر میں اضافہ
- کائنات کے ’سب سے نرم‘ سیارے نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا
- لاک ڈاؤن میں دو ہزار گھروں کی مفت مرمت کرنے والا ’رحم دل پلمبر‘
- جوبائیڈن نے اپنی حکومت میں خواجہ سرا کو اہم عہدہ دیدیا
- پی ڈی ایم کے احتجاج پرالیکشن کمیشن کا ردّعمل آ گیا
- سونے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان برقرار
- مریم نواز براڈ شیٹ پڑھیں، یہ آپ پر دوسرا پاناما کھلنے جارہاہے، وزیر داخلہ
ڈاکٹر روتھ فاؤ؛ ایک فرشتہ سیرت مسیحا کی رحلت

ڈاکٹر روتھ فاؤ کی پاکستان سے لازوال اور والہانہ محبت و عقیدت کا قرض اسی طرح چکایا جاسکتاہے کہ ان کامشن جاری رکھا جائے۔ فوٹو: فائل
پاکستان کی مدر ٹریسا اور جذام کے مریضوں کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں، ان کی عمر 87 سال تھی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات 19اگست کو سینٹ پیٹرکس چرچ صدر کراچی میں ادا کی جائیں گی۔
میری ایڈیلیڈ سوسائٹی آف پاکستان کی سربراہ اور ملک میں جذام کے مرض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی جرمن خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کی گزشتہ کئی ماہ سے طبیعت ناساز تھی، وہ 2 ہفتے سے نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔ سی ای او میری ایڈیلیڈ سینٹر ڈاکٹر مارون لوبو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کاانتقال رات ساڑھے 12بجے ہوا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ 1960ء میں ایک مشنری تنظیم کی طرف سے پاکستان آئیں اور پھر جذام کے مریضوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
وہ نصف صدی سے مسیحائی کا آدرش سنبھالے دکھی انسانیت سے جڑی رہیں، اہل پاکستان نے انھیں ان کی بے لوث اور قابل تقلید خدمات کے حوالہ سے ’’پاکستان کی مدر ٹریسا‘‘ کا لقب دیا، وہ اپنے اسپتال کی طرف سے جذام کے مریضوں کو مفت سہولیات فراہم کرتی تھیں اور ان کے دار فانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی ان کی جذام کے مریضوں کو علاج معالجہ کی مفت سہولتوں کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ان کی پاکستان سے محبت بے داغ، بے مثال اور انسانیت کے زریں نام سے معنون تھی، وہ عجز کا پیکر اور ہر مریض کے لیے ماں کا درجہ رکھتی تھیں، ان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی اپنے کام سے کام رکھنا تھی، وہ کبھی بھی میڈیا کی چکاچوند سے متاثر نہیں ہوئیں، ان کی زندگی کا یہ پہلو ایک صدمہ سے کم نہیں کہ ان کی علالت کے دوران کوئی وفاقی اور صوبائی وزیر یا محکمہ صحت کی طرف سے کوئی نمایندہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی علالت کے دوران ان کی عیادت کے لیے نہیں پہنچا مگر ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی روایتی تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، بے حسی اور ایک عظیم خاتون کے آخری لمحات سے بے خبری کی یہ انتہا ہے۔
یاد رہے 1996ء میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو کوڑھ کے مرض پر قابوپالینے والے ممالک میں شامل کر لیا گیا تھا اور پاکستان کو یہ اعزاز دلانے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔1998ء میں انھیں اعزازی پاکستانی شہریت دی گئی جب کہ ہلال امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ہلال پاکستان اور لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ ویسے تو جرمنی میں پیدا ہوئیں لیکن اپنی جوانی پاکستان کی خدمت میں وقف کر دی، 60ء کی دہائی میں پاکستان میں جذام کے ہزاروں مریض تھے، اس وقت سہولتیں اور علم کی کمی کی وجہ سے جذام یا کوڑھ کو لاعلاج اور مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ ان ہی ایام میں روتھ فاؤ نے جذام کے مرض کے لیے شعور کی بیداری کا بیڑا اٹھایا اور آخری دم تک جذامی مریضوں کی خدمت اور علاج میں مصروف رہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ9 ستمبر1920ء میں جرمنی کے مقام لیپزگ میں پیدا ہوئیں، ان کی چار بہنیں اور ایک بھائی تھا، جنگ عظیم دوم میں جب روس نے مشرقی جرمنی پر قبضہ کیا تو وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی چلی گئیں جہاں انھوں نے میڈیسن کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا مگر اس تعلیم و تدریس سے ان کی تشفی نہیں ہوئی، وہ کچھ بڑا کام کرنے کا سوچنے لگیں چنانچہ اسی جذبہ کے تحت وہ پاکستان پہنچیں اور پھر جذامی مریضوں کے خدمت کا مشن ہی ان کی زندگی کا حقیقی مشن بن گیا۔
حقیقت میں جذام leprosy کے خلاف ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ایک انتھک معالجاتی جدوجہد کی، کراچی کے مشہور تجارتی اور کاروباری علاقہ صدر کی ایک ویران گلی میں انھوں نے میری ایڈیلیڈ سینٹر کی بنیاد رکھی اور 1963ء میں لپراسی کلینک خریدا، مریضوں کا علاج شروع کیا، ابتدا میں کراچی اور بعد میں پاکستان بھر سے جذامی مریض آتے گئے، افغانستان سے بھی جذام کے مریض میری ایڈ یلیڈ میں علاج سے استفادہ کرتے رہے، روتھ فاؤ نے منگھو پیر کے پہاڑی علاقہ میں گرم چشموں کے قریب اسپتال کے قیام کے لیے حکومت سے اراضی حاصل کی، منگھو پیر کے گرم معدنی چشمے ان مریضوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے، وہ علاقہ جذامی مریضوں کا گوٹھ کہلانے لگا۔ ڈاکٹر صاحبہ اور ان کی ٹیم کے ممبران وہاں جا کر مریضوں کے درمیان وقت گزارتے تھے۔
اب جب کہ پاکستان کی مدر ٹریسا ابدی نیند سو گئی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تدفین اور آخری رسومات کی تکمیل عبدالستار ایدھی کی طرح ریاستی اہتمام و احترام کے ساتھ انجام دی جائیں، انھیں مکمل سرکاری پروٹوکول دیا جائے، ان کے احترام میں قومی پرچم کو لازماً آج کے دن کے لیے سرنگوں کیا جانا چاہیے۔ وفاق، سندھ حکومت اور دیگر ریاستی ادارے اس عظیم مسیحا خاتون کے مشن کو رواں دواں رکھنے کے لیے میری ایڈیلیڈ سینٹر کو حکومت کی جانب ہر ممکن سہولت اور مالی معاونت مہیا کریں، جذام کے مریض معاشرہ کا قابل رحم حصہ ہیں، ان کی آباد کاری، مستقل علاج اور منگھو پیر سمیت ملک بھر میں قائم لپراسی سینٹرز کو علاج معالجہ کے لیے معقول رقم بجٹ میں مختص کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی پاکستان سے لازوال اور والہانہ محبت و عقیدت کا قرض اسی طرح چکایا جا سکتا ہے کہ ان کا مشن جاری رکھا جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔