پاکستان میں جمہوریت کا فریب

انیس باقر  جمعـء 11 اگست 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے بیشتر تاریخ نویسوں نے سیاسی ادوارکو نصف نصف دو مساوی حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ایک دورکو جمہوری دوسرے دورکو آمرانہ اور نواز شریف کے دور کو بھی جمہوری دور میں شامل کرلیا گیا  ہے۔ حالانکہ نواز شریف پنجاب کے وہ وزیر ہیں جنھیں فوجی جنرل نے نامزد کیا اور منظر عام پر لائے گئے۔ تاریخ کے الٹ پھیر نے ان کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا۔ حالانکہ جمہوریت کے جو دور ہوتے ہیں، ان میں جمہوری نشانات نابود تھے۔

ملک بھر کے کسی بھی صوبے میں اسٹوڈنٹس یونین نہ رہی، ٹریڈ یونین کو ختم کردیا گیا اور وہ 1977ء سے آج تک پا بہ جولاں ہیں۔ پھر بھی قلم کی حرمت کے محافظ اس جمہوریت کو پارلیمانی جمہوریت کے نام سے للکارتے ہیں تاکہ دنیا میں عوام کے نام پر عالمی معیار کی مراعات سے مستفید ہوتے رہیں اور مصنوعی طور پر عوام کو بہلا پھسلا کر ان کو ملک میں رکھا جا رہا ہے اور ایک مخصوص قسم کا جال بن رکھا گیا ہے، جس میں میڈیا امرا کی جمہوریت کے نام پر ان کو امیدیں دلاتا رہتا ہے۔

میڈیا کا کام عوام کو باشعور کرنا نہیں بلکہ تصادم کی فضا پیدا کرنا ہے۔ جنسی اور اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرنے والوں کو نمایاں کیا جاتا ہے اور جنسی آلودگی میں لوگوں کو متوجہ کرکے ایک اخلاقی بحران کو جنم دیا جاتا ہے اور اس پر ٹاک شو کیے جاتے ہیں۔ اس کو جمہوریت کہا جاتا ہے بینظیرکی حکومت کا ایک مختصر سا دور گزرا وہ انتشار کا شکار رہا جس کو پنجاب حکومت کی سازشوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ کیا محض قصیدہ خواں کاتبوں کی تحریریں جمہوریت کی پہچان ہیں جو عوام دشمن پالیسیاں وضع کرنے میں طاق ہیں۔

طلبا تحریک پر 1977ء سے تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ٹھیکیداری نظام مزدوروں پر نافذ ہے۔ پھر بھی ملک میں جمہوریت کے قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔ ابھی اتنے دن نہیں گزرے کہ لوگ پی آئی اے کی وہ ہڑتال بھول جائیں جس میں عنایت رضا کو شہید کیا گیا اور پی آئی اے کو ہڑتال کرکے نجی ملکیت بننے سے بچا لیا گیا۔ یہ تھی ایک ترقی پسند مزدور رہنما کی ملک کے لیے قربانی، مگر اس کو ملک کے حکمراں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ اسمبلی کا فلور ان کے لیے ایک تفریح گاہ ہے۔

عائشہ گلالئی کے موضوعات نے پورے تقدس کو پامال کرکے رکھ دیا ہے، حد ہوگئی اب تفریح بھی حکمراں عوام کے خرچ پر ہی کرنا پسند کرتے ہیں اور یہی موضوعات اب میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کا مستقبل بڑے دور کی بات ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں میڈیا خود محتسب اعلیٰ کا کردار ادا کرتا ہے مگر ہمارے یہاں بعض میڈیا اپنا غیر جانبدارانہ رویہ بھول چکا ہے اور وہ دنیاوی منفعت سے اپنا مستقبل سنوارنے میں لگ چکا ہے لہٰذا جو لوگ بغیر وردی کے ہیں وہ وردی والوں سے زیادہ آمرانہ رویہ ادا کر رہے ہیں۔ ان کو ہم کیا کہیں گے یہ ایسے ہی لوگوں کی پیروی میں سرگرداں ہیں جو گؤ ہتھیا کو تو پاپ سمجھتے ہیں مگر انسان کو ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

جرائم پیشہ افراد کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا نہ سیاست ہوتی ہے کیونکہ ان کی تعلیم محض نصابی کتب تک ہی بند ہوتی ہیں۔ 1960ء میں برصغیر میں معاشی تعلیم کا رواج ہوا چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا تیزی سے پھیلاؤ ہوا اور اخلاقی پستی نے گھر کرنا شروع کردیا۔ اس لیے بھارت میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا شروع کردیا اور مذہب کا واویلا وہاں بھی شروع ہوگیا اور انسان رکشا کے بجائے گؤ رکشا کے لیے ایمبولینس سروس شروع کردی گئی۔ دنیا میں جس قدر بھی مذاہب آئے وہ انسان کی فلاح کی خاطر کیونکہ انسان تو اللہ سے متصادم ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تاریخ عالم میں حضرت موسیٰ نے ہفتے میں ایک روز تعطیل کا مقرر کیا مگر سرمایہ دارانہ نظام نے باقیات غلامی کو نئی شکل دینے کی کوشش کی، مگر جہد انسانی نے ان میں اصلاحات مقرر کیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتیں روبہ زوال ہیں۔

مانا کہ بھارت میں 30 کروڑ کا مضبوط مڈل کلاس معرض وجود میں آگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ یہ مودی کی کارگزاری ہے سراسر غلط ہے یہ تو پنڈت جواہر لعل نہرو کی زمینداری اصلاحات کا ثمر ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ سامنے آیا ہے ورنہ تو بھارت کی حکومت تو انسانی ذہن کو محدود تر کر رہی ہے اور ملک کو کمزور کرنے میں مصروف ہے۔

پاکستانی جمہوری حکومتیں بھی اسی طرز پر خود کو چلا رہی ہیں۔ پہلے لوگوں کو فرقوں میں بانٹا۔ پورے ملک میں دوسرے فرقوں اور مسالک کے لیے نعرہ تکفیر کافر کافر پھر دھماکے اور آخر کار فوج کو کارروائی کرنی پڑی جس کی بدولت سویلین حکومت کو اپنے حقوق قربان کرنے پڑے اور اب مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنا یوم آزادی منا رہی ہیں۔ پھر بھی مکمل طور سے پرامن حالات نہیں لوٹے پھر بھی فوجی اشتراک سے چلنے والی حکومت نظم و نسق کے اعتبار سے قدرے بہتر ہیں ورنہ کراچی میں بے شمار قتل جمہوری حکومتوں کا ورثہ تھا۔

بعض علاقوں میں لوگ یرغمال تھے ہر علاقے کی ایک الگ قسم کی حکومت ہوتی تھی۔ چائنا کٹنگ، بھتہ ایک معمول تھا۔ لوگ جمہوری روایات کی بات کرتے ہیں اگر بدنظمی یوں ہی چلتی رہی تو خدشہ اس بات کا بڑھتا جا رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کہیں اسمبلیوں کو مکمل طور پر برخاست نہ کردے اور نئی انتخابی حکمت عملی کا اعلان نہ ہوجائے۔

نواز شریف لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کم کیوں ہوگئی؟ ایک زبردستی میں یونیفارم والا جب صدر تھا تو ڈالر 80 روپے کے قرب و جوار میں کیوں آگیا تھا؟ کیا یہ بھی کوئی آمرانہ تکنیک تھی۔ سویلین حکمرانوں کی ایک عام سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ روپیہ اپنی قدر کیوں کھوتا ہے۔ کیا جمہوری حکومتوں نے عوام میں روپیہ تقسیم کیا ہے؟ ہر بے قصور پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا عالمی قرض ہے۔

وزرا نہ علم رکھتے ہیں نہ عوام پر اخراجات کرتے بلکہ سی پیک ٹیکس بھی لگایا جا رہا ہے اور نہ جب کوئی معاہدہ کسی ملک سے کیا جاتا ہے تو اس کی تفصیلات عوام میں پیش کی جاتی ہیں کہ فلاں ملک کو کیا کیا حقوق دیے گئے ہیں، کان کنی میں سونے چاندی آئل اور کیا کیا اور ملک کو اس کے عوض فلاں ملک پاکستان کو کیا دے گا؟ یا دے رہا ہے جمہور تو بقول جالبؔ کے یہ تو جہل کا نچوڑ ہیں اور ہمارا میڈیا بھی اسی سمت لگ گیا ہے نمایاں خبروں میں کئی قسم کی عیاشیوں کی خبریں ہیں اور ہم ہیں دوستو! یہ رہ گیا ہے ہمارا معیار اور ہمارے لیڈران۔

ہمارے علاقے میں ہمارے بعد آزادی پانے والے ملک 1949ء کو چین آزاد ہوا لیکن وہاں کی لیڈر شپ نے عوام کو کئی دور دکھائے پہلا دور جو چین نے دیکھا وہ قوم نے سائیکل پر چلنا سیکھا، دوسرا دور مرد و زن نے موٹرسائیکل کی سواری استعمال کی پھر وہ کاروں کی دوڑ میں، بلٹ ٹرین اور اب سیارگان کو کنٹرول کرنے والی حکومتوں میں شمار ہونے لگا، یہ ہوتے ہیں فکر تعلیم ایمانداری اور عوام سے دیانت داری کے نتائج۔

پاکستانی لیڈروں نے ایک اور اندھیر چھپانے کے لیے عرب ممالک سے پینگیں بڑھائی ہیں اور ظاہر ہے پاکستان کو ان کی شکارگاہ بنا رکھا ہے جب کہ ان ممالک نے بھارت کو اور ان کے لیڈروں کو نسبتاً بڑے مراتب عطا کر رکھے ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو بے توقیر کر رکھا ہے۔ صرف زر کی بنیاد ہی ان کے نزدیک معیار ہے۔ اسی لیے ان لیڈروں کی نگاہیں پست اور سخن دل خراش ہیں۔

جو نئے وزیر اعظم آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ  جو پالیسی چل رہی ہے وہی چلتی رہے گی۔ انھوں نے بھی عوام کے لیے کوئی ریلیف پیکیج دینے کا عندیہ نہ دیا اور نہ بلوچستان کے لیے کسی سیاسی گفتگو کا کوئی بیان دیا۔ اصل میں پاکستانی لیڈر کسی بھی قسم کی سیاسی گفتگو کو درمیان میں نہیں لانا چاہتے۔ پاکستان کے عام سیاسی حالات اور واقعات اتفاقات کی پیداوار ہیں اور میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوکر اپنی اپنی زبان بول رہا ہے جس کو جس میں نفع محسوس ہو رہا ہے وہ اس راہ پر چل رہا ہے۔

رہ گیا جو سوالات میں نے ابتدا میں اٹھائے ہیں کہ اسٹوڈنٹس یونین اور مزدور یونینوں کی بحالی کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو قائد اعظم نے بھی پاکستان کی تحریک کا آغاز مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیا۔ مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو دیانت دار باہمت پرجوش کارکنوں کی ضرورت نہیں ہے وہ ایسے ہی لیڈروں کو پروان چڑھانا چاہتی ہے جو ان کے فارم ہاؤس میں پروان چڑھیں اور ایسے دروغ گو سخن ور جو عوام کو معمولی تنازعات اور مسائل میں الجھا کر رکھیں۔ کبھی کبھی تو میں خود کو دوش دیتا ہوں کہ قلم کی نوک سے تبدیلی آنے کی نہیں اور قلم کے علاوہ فکر کو فروخت کرنے والے نام نہاد گمراہ کن دانشور ہی ملک پر چھائے رہیں گے، کیونکہ ان کو کئی اطراف سے کمک جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔