بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم

منظور رضی  جمعـء 11 اگست 2017

بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم کی 18 ویں برسی 11 اگست 2017 کو منائی جارہی ہے۔ برصغیر میں ٹریڈ یونین کے بانی معروف ترقی پسند محنت کشوں کے عظیم محسن اور مشہور کمیونسٹ رہنما مرزا محمد ابراہیم 11 اگست 1999 کو موت کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ موت تو سب کو آنی ہے مگر جو عزت اور شہرت مرزا محمد ابراہیم کو نصیب ہوئی ہے وہ شاید ہی کسی مزدور رہنما کو حاصل ہوئی ہو، مگر وہ جس طبقے کی نمایندگی کرتے تھے ان کے ساتھ نیا میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ مرزا صاحب کے ساتھ ہوا۔

مرزا محمد ابراہیم 1905کو جہلم کے قریب کالا گجراں میں پیدا ہوئے ان کے والد مرزا عبداﷲ بیگ ایک چھوٹے اور بے زمین کسان تھے۔ ان کے ایک بڑے بھائی مرزا اﷲ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار ’’روشنی‘‘ نکالتے تھے۔ مرزا محمد ابراہیم نے جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-1921 میں خلافت تحریک میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا۔ بعد میں مزدور کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بعد ازاں وہ 1926 میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔ 1920 میں محکمہ ریلوے میں یونین بن چکی تھی۔

1930 میں ان کا تبادلہ جہلم ورکشاپ سے لاہور مغلپورہ پاور ہاؤس میں ہوگیا۔ جہاں انھوں نے 1931 میں یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر یونین مضبوط تھی جس کے صدر ایک انگریز جے بی ملر تھے۔ جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے خان تھے۔ مرزا صاحب مغلپورہ کے صدر مقرر ہوئے۔ 1930 میں برطانیہ میں صنعتی بحران آیا ہوا تھا اس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی پڑا۔ یہاں کے کارخانے بند ہونے لگے۔ ریلوے مزدوروں کی بھی چھانٹیاں ہونے لگیں۔ ان اقدامات کے خلاف مرزا ابراہیم کی قیادت میں مزدوروں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ 1917 میں چونکہ روس میں انقلاب آگیا تھا جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑی جس کے پہلے جنرل سیکریٹری پورن چند جوشی تھے۔

اسی دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور وہ 1935 میں باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیبر ونگ کے انچارج بن گئے۔ اسی زمانے میں ’’ریلوے مین فیڈریشن‘‘ کی بنیاد پڑی جس کے مرکزی سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ صدر وی وی گری منتخب ہوئے جو بعد میں بھارت کے صدر بھی رہے، جنرل سیکریٹری ایس اے ڈانگے بنے۔ تقسیم سے ایک سال قبل یکم مئی 1946 کو ہندوستان بھر میں ریلوے کے مزدوروں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چھانٹیوں کے خلاف مکمل ہڑتال کردی جس کی قیادت مرزا محمد ابراہیم کررہے تھے۔ انھیں کہاکہ اسسٹنٹ ورکس منیجر حیدرآباد بن جائیں اور ہڑتال سے لا تعلق ہوجائیں۔ مرزا ابراہیم نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا لیکن اس کے بدلے میں ایک لاکھ مزدور بے کار ہونے سے بچ گئے اور پے کمیشن نے 9 کروڑ روپے مزدوروں کی تنخواہوں کی مد میں دیا۔

تقسیم کے فوری بعد مرزا ابراہیم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ آزاد پاکستان میں یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی۔ بعد میں وہ 17 مرتبہ جیل گئے، 6 مرتبہ قلعہ لاہور میں نظر بند رہے، پاکستان میں جب وہ 1951 میں جیل میں تھے تو حکومت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کردیا۔ مرزا صاحب کو جیل سے کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی طرف سے امیدوار نامزد کردیا۔ ان کے مقابلے میں برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعید کرمانی تھے۔ مرزا صاحب یہ الیکشن جیت گئے، اعلان بھی ہوگیا مگر بعد میں دوسرے پر نمبر پر آنے والے سرکاری امیدوار کو جتادیا گی۔ مرزا ابراہیم کے 2500 ووٹ رد کردیے گئے اور یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔

پاکستان میں پہلی ٹریڈ یونین فیڈریشن یعنی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے پہلے صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ نائب صدر فیض احمد فیض، آفس سیکریٹری ایرک اسپرین، جوائنٹ سیکریٹری فضل الٰہی قربان اور سندھ کے صدر سوبھوگیان چندانی مقرر ہوئے۔ چونکہ مرزا ابراہیم کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا اس لیے وہ سجاد ظہیر کے اچھے دوست تھے۔ ان کے ساتھ برصغیر کی قابل اعتماد اور نامور شخصیات نے کام کیا۔ ٹریڈ یونین اور سیاسی کاموں کی وجہ سے وہ اپنے شہر جہلم اور گاؤں کالا گجراں میں مقیم اپنی بیوی بچوں اور رشتے داروں سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کے 70 سال لاہور میں گزار دیے۔ ان کے سامنے پاکستان بنا، ان کی ریلوے ورکرز یونین دو مرتبہ سودے کار ایجنٹ (ورکشاپ) منتخب ہوئی مگر وہ اپنے لیے لاہور میں کوئی مستقل مکان یا دفتر بھی نہ بناسکے۔ وہ ملک میں جاری سیاسی عمل سے بھی پریشان تھے۔

وہ کہہ رہے تھے کہ اب بھی اس ملک کے عوام کو ایک اچھی ترقی پسند سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے۔ یہ کام کمیونسٹ تحریک سے وابستہ لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ آج سامراج اور اس کے حواری جتنے کمزور ہیں اس سے پہلے کبھی اتنے کمزور نہ تھے۔ لیکن عوام میں کوئی سیاسی پارٹی مضبوط نہیں ہے جو ان کو للکارسکے۔ آج سرمایہ داری اور جاگیرداری اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہورہی ہے۔ ملک کے غریب عوام کو بھوک، غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگاری سے نجات دلانے کے لیے حکمرانوں سمیت عالمی سامراج کے پاس عوام کی خوشحالی کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔

مرزا محمد ابراہیم ایک عظیم انسان تھے۔ جنھوں نے ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور علاقے سے بالاتر ہوکر اس ملک کے مزدوروں کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش نے عالمی شہرت حاصل کی۔ وہ مزدوروں کے بڑے دانشور کہلائے جس کے سامنے بڑے بڑے علما اور دانشور خاموش رہتے تھے۔ مرزا صاحب چاہتے تو حکمرانوں سے مراعات حاصل کرسکتے تھے۔ انھیں بار بار اس کی پیشکش بھی کی گئی مگر کوئی بھی حکمران انھیں خرید نہ سکا۔ حکمرانوں اور انتظامیہ نے مل کر یونین کو کمزور کیا، مزدور تحریک کمزور پڑنے لگی، تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوگیا۔ انھی وجوہات نے مرزا ابراہیم کو بیمار کردیا۔

اس طرح مرزا ابراہیم محنت کشوں کی عالمی تنظیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1935 میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی۔ 1917 میں روس میں انقلاب آچکا تھا جس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑے۔ انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور بغاوت تھی۔ 1935 ہی میں ریلوے مین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس کے صدر وی وی گری (V.V.Gari) مقرر ہوئے اس کے سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے۔ انھوں نے برصغیر کے بڑے بڑے نامور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، کام کیا، جیلیں کاٹیں۔ انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، جواہر لعل نہرو، عبدالغفار خان، جی ایم سید، سید سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض، حسن ناصر سمیت کئی رہنماؤں کے ساتھ کام کیا۔ تقسیم کے بعد ریلوے ورکرز کی یونین کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کی پہلی مزدور فیڈریشن پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن بنائی۔ اس کے بانی صدر بنے اس کے ساتھ سینئر نائب صدر فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک اسپرین، عابد حسن منٹو، فضل الٰہی قربان، ڈاکٹر عبدالمالک، سوبھوگیان چندانی بھی اس فیڈریشن میں شامل رہے۔

بعد میں ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، ریلوے ورکرز یونین پر پابندی لگادی گئی۔ وہ پاکستان کے پہلے قیدی بنے۔ شاہی قلعہ میں نظر بند رہے۔ 17 مرتبہ جیل گئے، 6 مرتبہ قلعہ لاہور میں نظر بند رہے۔ انھوں نے حسن ناصر، حسن عابدی، انیس ہاشمی، محمود الحق عثمانی، ولی خان، دادا امیر حیدر، دادا فیروز دین منصور، فیض احمد فیض، حبیب جالب، عبدالصمد اچکزئی، سردار شوکت علی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، طفیل عباس، منہاج برنا، امام علی نازش، میجر اسحاق، افضل بنگش، غلام نبی کلو، چوہدری فتح محمد، محمد اسلم، عبدالرشید باغی، نبی احمد SPلودھی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، میاں افتخار الدین، محمد حسین عطا احمد ندیم قاسمی، حمید اختر، نثار عثمانی، حیدر بخش جتوئی، مسعود کھدر پوش، ظفر اﷲ چوشنی، حسن حمیدی، سوبھوگیان چندانی، احمد الطاف، زین الدین خان لودھی، حسین الدین لودھی، ڈاکٹر شمیم زین الدین، شمیم اشرف ملک، بیگم شمیم اشرف ملک، بیگم ایلس فیض سمیت کئی نامور سیاسی رہنماؤں، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ بھرپور جد وجہد کرتے ہوئے زندگی گزاری۔

محنت کشوں کا یہ قلندر11 اگست 1999 کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو سوگوار کرگیا۔ ملک میں افرا تفری ہے، نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی وہ نا اہل ہوچکے۔ قومی اداروں کی نج کاری کا عمل جاری ہے۔ ٹریڈ یونین زوال پذیر ہے۔ آج مرزا ابراہیم زیادہ یاد آرہے ہیں۔ مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999 کو مزدوروں کو تنہا کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔