نذیرعباسی امر ہے

زبیر رحمٰن  جمعـء 11 اگست 2017
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ہرچندکہ نذیرعباسی ہم میں جسمانی طور پر نہیں رہے لیکن ان کا نظریہ ہمارے لیے ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے گا۔ یہ نظریہ پہلے سے زیادہ پھل پھول رہا ہے۔ حکمرانوں نے سمجھا تھاکہ نذیرعباسی کو مارنے سے نظریہ اور ان کے ماننے والوں کوختم کردیں گے، مگر یہ نہ صرف ممکن نہ ہوسکا بلکہ نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ نذیرعباسی کو جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں نو اگست 1980 کوکراچی میں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا تھا۔ اس وقت نذیر عباسی جام شورویونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات سال آخرکے طالب علم تھے۔

نذیر عباسی جب کمیونسٹ پارٹی سندھ کے سیکریٹری تھے اس وقت راقم کراچی کا سیکریٹری تھا ۔ میں نے بڑے قریب سے ان کے نظریات اور سرگرمیوں سے واقف تھا ۔ نذیر عباسی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، ان کے والدکی مالی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ بچوں کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرسکیں، اس لیے وہ چنے بیچ کر اپنی پڑھائی کے اخراجات نکالتے اورکچھ رقم اپنے والدین کوبھی دیتے تھے۔

شروع میں نذیر عباسی ایک قوم پرست طلبہ تنظیم ماروڑہ طلبہ فیڈریشن کے کارکن بنے لیکن کچھ عرصے بعد ایس این ایس ایف کے طالب علموں نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ طلبہ کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور وہ مسائل سب کے ہوتے ہیں، خواہ وہ سندھی، پنجابی، پٹھان،بلوچ یا کوئی اور ہو۔ ہم طلبہ کوبھی طبقاتی بنیادوں پر ہی جدوجہد کرنی ہو گی اس لیے ہمارے والدین کی اکثریت مزدوروں ،کسانوں اور محنت کش عوام ہیں۔

ان دلائل سے مطمئن ہوکر وہ سندھ نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے اوراپنی فعال سرگرمیوں اور شعوری بلاغت کے باعث تھوڑے عرصے میں ہی سندھ کے صدر بن گئے۔ ان طلبہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ بین الاقوامیت پسند تھے اس لیے وہ کمیونسٹ نظریات کی جانب متوجہ ہوئے پھرکمیونسٹ پارٹی کے نمایندے نے ان سے ملاقات کی اور پارٹی کا منشوراور نظریہ پیش کیا اس کے بعد وہ ان سے متاثر ہوکرکمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے اور مستقل فعال سر گرمیوں اور شعوری منازل طے کرنے پر انھیں سندھ کا سیکریٹری منتخب کرلیا گیا، وہ مرکزی کمیٹی کے رکن بھی بن گئے۔

نذیرعباسی کا نظریہ کمیونزم پھر سے انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اس بار مزدوروں کے عالمی دن پہ دنیا کے 200 ملکوں کے دس ہزار شہروں میں کمیونسٹ ، ورکرز پارٹیوں ، مزدوروں ،کسا نوں اور پیداواری قوتوں نے جلوس نکالے۔ امریکا، یورپ، جاپان، ہندوستان، عراق، لبنان، جنوبی افریقہ ، مغربی افریقہ، جنوبی امریکا، ترکی، برازیل، جنوبی کوریا سمیت قابل ذکر پر امن اور پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ اسی طرح مختلف ملکوں ، صوبوں اور خطوں میں کمیونسٹ تحریک کامیابی حاصل کررہی ہے۔ مثال کے طور پر نیپال، منگولیا، لاؤس میں کمیونسٹوں کی حکومتیں ہیں۔

ہندوستان کا صوبہ کریلا میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ سوشلسٹ کوریا، امریکا کے خلاف اپنی جائزخود مختار ی اور خود انحصاریت کے اصولوں پر ڈٹا ہوا ہے ۔ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میںکمیونسٹوں ، سوشلسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹ کی حکومتیں قائم ہیں ۔ امریکا میں صدارت کے لیے سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرزکی مقبولیت ، برطانیہ میں حزب اختلاف کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کو ربون کا عوام میں مقبول ہونا،جنوبی یورپ میں کمیونسٹوں کی مضبوط تحریک ، چین میں نیوکمیونسٹ پارٹی آف چا ئیناکی بنیاد رکھنا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر علاقے اور خطے میں کمیونسٹ تحریک پیش قدمی کررہی ہے ۔

حال ہی میںسندھ ہاری کمیٹی نے سندھ میں ہاریوں پر وڈیرے کے قبضے کا خاتمہ کیا اور زمین عدالت کے فیصلے کے تحت ہاریوں کو واپس دلوائی ۔اس طرح سے پاکستان میں عوام ہر جگہ اور ہر علاقے میں اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہدکرتے نظر آتے ہیں ۔ پانی کا مسئلہ ہو، مزدوروں کے مسائل ہوں ، صحت کا مسئلہ ہو، اساتذہ کے مسائل ہوں ، لوگ طبقاتی اور پیشہ ور بنیادوں پر جدوجہد کررہے ہیں اور ان تمام طبقاتی اور پیشہ ور بنیادوں پرجدوجہد ہوئی اور ہورہی ہے، ان کی رہنمائی بھی بایاں بازوکررہا ہے یا پھر ان کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک ہیں۔

نذیرعباسی کا نظریہ طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے ، مہنگائی بیروزگاری اور افلاس کے خاتمے کا نظریہ ہے اور یہ نظریہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک طبقات وجود رکھتے ہیں اور طبقاتی استحصال ختم نہیں ہوجاتے اس وقت تک یہ نظریہ قائم ودائم رہے گا۔

پاکستان کے حکمران طبقات انتہائی خلفشارکا شکار ہیں ، اگر محنت کش عوام کی قابل ذکر انقلابی سرگرمیاں نظر نہیں آ رہی ہے اور حکمران طبقات ( حزب اقتدار اور حزب اختلاف ) نہ صرف ہانپ رہے ہیں بلکہ مستقبل کی فکر میں خوفزدہ ہیں اور ان پر لرزہ طاری ہے تو پھر منطقی طور پر عوام طاقتور ہیں اور چنگاری کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ حکمران طبقات، حزب اقتدار اور حزب اختلاف نہ صرف آپس میں گتھم گتھا ہیں بلکہ یہ اپنی صفوں میں بھی بے اعتمادی اور مفادات کی تضادات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بے شمارکارکنان زرداری لیگ سے نالاں ہیں تو مسلم لیگ ن میں نظر نہ آ نے والے تضادات موجود ہیں ۔

تحریک انصاف کی دھڑے بندی تونہ صرف صاف نظر آرہی ہے بلکہ میڈیا پر ہی آگئی ہے ۔ میڈیا تقریباً سبھی ایک دوسرے کے خلاف ریٹنگ کی دوڑ میں مصروف ہے۔ یعنی کہ نان ایشوزپر مذاکرے اورمباحثے ہورہے ہیں لیکن عوام مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور افلاس سے تڑپ رہے ہیں ۔ اس کا اظہار بھی مخلف علاقوں میں الگ الگ طریقے سے ہورہا ہے، مگر بعض مسائل اور مواقعے پر اتحاد بھی بن کرملک گیر احتجاج ہورہا ہے۔ اس عمل میں کسی بورژوا پارٹی کا ہاتھ نہیں ۔عوام خود لڑرہے ہیں ۔ مثال کے طور پرنرسیں،اساتذہ، ہیلتھ ورکرز، ڈاکٹرز اور ریلوے کے مزدور وغیرہ ۔ان تمام عوامل سے اس بات کا بر ملا اظہار ہو رہا ہے کہ عوام حرکت میں ہیں ۔حکمران جب زیادہ آپس میں الجھیں گے اور اسی دوران جب مزدورطبقہ اور پیداواری قوتیں یکجا ہو کر احتجاج شروع کریں گے تو یہ عمل انقلاب کی جانب پیش رفت کرے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔