والدین سے حُسنِ سلوک

پروفیسر رائے اعجاز کھرل  جمعـء 11 اگست 2017
والدین اس ایثار کا مکمل نمونہ ہیں۔ فوٹو : فائل

والدین اس ایثار کا مکمل نمونہ ہیں۔ فوٹو : فائل

اسلام اپنے معاشرتی نظام میں خاندان کو بنیادی اکائی قرار دیتا ہے۔ اس خاندان کا ایک مظہر والدین کا وجود ہے۔ ماں باپ کے بغیر کوئی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔ عورت اور مرد کا سب سے اچھا روپ ماں اور باپ کا ہے۔ یہ روپ اللہ کی رحمت اور اس کے انتظام کا عکس ہے۔

معاشرتی زندگی میں چوں کہ اولین چیز ایثار ہے اور کوئی معاشرہ بھی ایثار کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ والدین اس ایثار کا مکمل نمونہ ہیں۔ توحید کے بعد معاشرے کی جڑ اور بنیاد والدین سے حسن سلوک ہے۔ سب سے بڑھ کر تو حق اللہتعالیٰ کا ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ شریک نہ کیا جائے، خالص اس کی بندگی ہو جب کہ معاشرے میں افراد کے درمیان سب سے بڑھ کر حق والدین کا ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ارشاد ربانی ہے، مفہوم ’’ اور تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بل کہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ اے پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے رحمت و شفقت کے ساتھ بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (سور بنی اسرائیل )

مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کا یہ زندۂ جاوید ارشاد حتمی حکم کی صورت میں ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے درمیان تعلق پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بہ کثرت اور مسلسل آیات مذکور ہیں جو مسلمانوں کو والدین سے حسن سلوک کو اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کا سبب قرار دیتی ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ پر ایمان کی فضیلت کے بعد سب سے بڑی انسانی فضیلت قرار دیتی ہیں۔ اس لیے سچا اور باشعور مسلمان اللہ کی واحدنیت کا اقرار کرنے کے بعد اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ قرآنی آیات کے ساتھ احادیث مبارکہ بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت کو پورے زور و تاکید سے ثابت کرتی ہیں اور ان کی نافرمانی اور بدسلوکی سے ڈراتی ہیں، خواہ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا عمل؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ (بخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے : ’’ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو۔ عرض کی گئی کس کی یارسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے والدین ان میں سے کسی ایک کا بڑھاپا پایا اس کہ باوجود جنت میں داخل نہیں ہوا۔‘‘ (مسلم)

آپؐ نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا جب اپنے والدین کو محبت کی نگاہ  سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر مرتبہ دیکھنے کی عوض (اس کے اعمال نامے میں) ایک مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کی اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ والدین کو دیکھے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔‘‘ (مسلم)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ جنت کی خوش بو پانچ سو برس کی مسافت سے محسوس ہوگی لیکن ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اس سے محروم رہیں گے۔‘‘ (طبرانی)

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ تمہارے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کی نافرمانی تم پر حرام کردی۔‘‘ (بخاری)

ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا، جی۔ آپؐ نے فرمایا: ان کی خدمت جہاد سمجھ کر کرو۔ (بخاری و مسلم)

والد کی اطاعت اور احترام کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’ باپ کی خوشی میں اللہ کی خوشی ہے اور باپ کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔‘‘ (ترمذی)

حسن سلوک کے ضمن میں ماں کا درجہ باپ سے زیادہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی۔ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی۔ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی۔ فرمایا تمہارا باپ۔ (بخاری و مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ ماں کا درجہ باپ سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ قرآن مجید نے یہ بتائی کہ اس کی ماں نے بڑی مشقت سے پیٹ میں رکھا اور مشقت سے جنم دیا۔ اولاد کی پرورش اور تربیت کے لیے ماں کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے باپ کو نہیں کرنا پڑتا، علاوہ ازیں حمل، وضع حمل اور رضاعت کی تکلیف بھی ماں برداشت کرتی ہے۔ اس وجہ سے علماء نے کہا کہ جہاں تک ادب و احترام کا تعلق ہے باپ زیادہ حق دار ہے لیکن حسن سلوک اور خدمت کے لحاظ سے ماں کا درجہ زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کی شان اتنی بلند کی ہے کہ ماں کی عظمت اور شان کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جسم کا سب سے کم تر عضو پاؤں ہے جنت ماں کے پاؤں کے تلے بتائی گئی ہے۔

ایک نوجوان رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں آپ ﷺ اجازت عطا فرمائیں۔ رسول اکرم ﷺ نے پوچھا تمہاری ماں زندہ ہے جواب دیا ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: تم جہاد پر جانے کے بہ جائے اپنی ماں کی خدمت بجا لاؤ کیوں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (نسائی)

ماں باپ کا حق صرف ان کی زندگی تک ہی محدود نہیں بل کہ ان کی وفات کے بعد اولاد پر یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ ان کے حق میں مغفرت کرتے رہیں۔

ارشاد ربانی ہے، مفہوم: ’’ اے میرے پروردگار میرے ماں باپ پر رحم فرما جیسے بچپن میں انہوں نے مجھے پالا رحمت و شفقت کے ساتھ۔‘‘ ( سور بنی اسرائیل )

ایک مرتبہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا والدین کے مرنے کے بعد میں کوئی نیکی ان سے کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ ان کے کیے وعدے پورے کرو۔ ان کے رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرو اور ان کے دوستوں کی عزت کیا کرو۔‘‘ (ابو داؤد)

قرآن و حدیث سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ ماں باپ کو راضی کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ ماں باپ کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے۔ ماں باپ کے نافرمان کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا، چاہے اس عمل کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو۔ ماں باپ کا نافرمان دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسل کو والدین سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔