پاکستان کی مدر ٹریسا جذام کے خلاف پر عزم سپائی بن کر سامنے آئیں

مرزا ظفر بیگ / احد اقبال  جمعـء 11 اگست 2017
پاکستان کا یہ قیمتی خزانہ، عظیم انسانی خدمت گزار اب دنیا میں نہیں رہا۔ فوٹو : فائل

پاکستان کا یہ قیمتی خزانہ، عظیم انسانی خدمت گزار اب دنیا میں نہیں رہا۔ فوٹو : فائل

ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ طویل عرصے تک علیل رہنے کے بعد پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں 10 ستمبر2017 کو صبح 6بجے چل بسیں اور اس طرح دنیا بھر میں پھیلے اپنے لاکھوں مداحوں اور گوادر سے گلگت اور افغانستان تک پھیلے بے شمار مریضوں اور ان کے عزیزوں کو دُکھی چھوڑ گئیں۔

ڈاکٹر فاؤ نے ساری زندگی پاکستان میں جذام کے مریضوں کی فلاح و بہبود کے  لیے کام کیا اور انہوں نے اس وقت ان مریضوں کو گلے لگایا جب انہیں نفرت سے دور کردیا جاتا تھا اور دیکھنے والے ان سے کنی کترا کر نکل جاتے تھے۔ ایسے میں ہاتھ ناک، کان کٹے، پیپ سے بھرے مریضوں کو محبت سے دیکھنا، ان پر خاص توجہ دینا، ان کا خود علاج کرنا، ان کی صحت مندی کے لیے ساری زندگی دوڑ دھوپ کرنا روتھ فاؤ کا مقدس مشن بن گیا تھا۔ اس مقدس مشن کے لیے ان کی خدمات نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو پاکستان کی مدر ٹریسا بنادیا تھا۔

مادام روتھ فاؤ کی زندگی بڑی عجیب و غریب تھی۔ وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے لیے ہر طرح کی سہولت اور آسانی موجود تھی۔ وہ چاہتیں تو ساری زندگی  اس ترقی یافتہ ملک میں عیش اور اطمینان کے ساتھ بسر کرسکتی تھیں۔ لیکن وہ ایک حساس خاتون تھیں جن کے دل میں شروع ہی سے دکھی انسانیت کا درد  موج زن تھا۔ ان کی روح میں بے چینی اور اضطراب تھا۔ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتی تھیں جس سے ان کی روح کو سکون مل سکے۔ اپنے روحانی سکون کی خاطر انہوں نے کیتھولک  آرڈر سے وابستگی اختیار کرلی اور بعد میں پاکستان چلی آئیں۔ یہاں انہوں نے اس ملک کے دکھی لوگوں کو دیکھا اور خاص طور سے جذام کے مرض کی تباہ کاریاں دیکھیں تو یہ سب دیکھ کر انہیں بہت افسوس ہوا  کہ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جو جذام کے مریضوں کی نگہ داشت اور ان کا علاج کرتا ہو۔

1960 میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں رہنے اور یہاں کے لوگوں خاص طور سے جذام کے مریضوں کی خدمت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جنہیں اس دور میں نہ کوئی دیکھنے والا تھا اور نہ کوئی ان کی حالت بہتر بنانے پر آمادہ تھا۔ وہ جذام کے خلاف ایک ایسی سپاہی بن کر سامنے آئیں جس نے پاکستان سے جذام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا عہد کرلیا تھا۔

کراچی میں مادام روتھ فاؤ نے سٹی ریلوے اسٹیشن کے عقب میں میکلوڈ روڈ پر آباد جذامیوں کی ایک بستی کا دورہ کیا۔ یہاں جذام کے مریضوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر انہیں بہت دُکھ ہوا اور انہوں نے یہ عہد کرلیا کہ اب ساری زندگی اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کرنے میں گزاریں گی۔ چناںچہ انہوں نے شہر کی اس  کچی آبادی  کی ایک جھونپڑی میں جذام کے مریضوں کے لیے پہلا لپروسی سینٹر قائم کرکے اپنے کام کا آغاز کردیا جہاں ان پریشان حال مریضوں کا علاج بھی ہونے لگا اور ان میں جینے کی امنگ بھی پیدا کی جانے لگی۔ اس کے بعد میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کی بنیاد رکھی گئی۔ اپریل 1963 میں ایک لیپروسی کلینک خریدا گیا جہاں پورے کراچی، پاکستان اور  یہاں تک کہ افغانستان سے بھی جذام کے مریض علاج کے لیے آنے لگے۔

اس کے بعد ڈاکٹر فاؤ کی خدمات کا دائرہ دراز بھی ہونے لگا اور ان میں تیزی بھی آنے لگی، اور کراچی کے علاوہ پاکستان بھر میں اس موذی اور مہلک بیماری کے علاج کے چھوٹے چھوٹے مراکز قائم ہوتے چلے گئے جہاں پیرا میڈیکل ورکرز  کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت  گزاروں کو تربیت بھی کی جاتی تھی۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ  نے جذام کے مریضوں کی نگہ داشت کے لیے پاکستان کے دور دراز علاقوں کے سفر بھی کیے۔ وہ   ایسے مریضوں کی تلاش میں غاروں میں بھی گئیں اور پہاڑوں میں بھی۔ انہوں نے تاریک جھونپڑوں کے دورے بھی کیے  اور اصطبل خانوں کے بھی۔ انہوں نے نہ جنگل چھوڑے، نہ ریگستان، بڑے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جذام کے مریضوں کے پاس جاکر ان سے ملاقات کی اور انہیں چیک کرکے ان کے مفت علاج کا بند و بست بھی کیا۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ ایک بہت توانا، متحرک اور مضبوط خاتون تھیں جو اپنے مریضوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ میری ایڈیلیڈ سینٹر کے نیشنل کو آرڈی نیٹر مارون لوبو گیارہ بارہ سال تک ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ رہے اور دور دراز علاقوں کے سفر میں ان کے معاون کے طور پر شامل رہے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا: ’’ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل تھا، کیوں کہ ان کے اندر اتنی توانائی ہے کہ شاید کوئی اور ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘

ڈاکٹر روتھ فاؤ جس جذبے اور لگن سے کام کرتی تھیں، اسے دوسرے لوگ دیکھتے بھی تھے اور محسوس بھی کرتے تھے۔ وہ جرمنی اور پاکستان میں اچھے خاصے عطیات جمع کرتی تھیں اور پھر ان سے کراچی اور راول پنڈی کے اسپتالوں  کے ساتھ ہر طرح کا مالی تعاون کرتی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات بے مثال تھیں، انہیں  اپنی پُرخلوص اور نمایاں خدمات کی وجہ سے دنیا کی قوموں اور لوگوں سے عزت و تکریم سے نوازا گیا، انہیں پاکستان سے عطیات تو ملتے ہی تھے، ساتھ ہی دنیا بھر میں آباد دوسری اقوام بھی ان کے ساتھ ہر طرح کا مالی تعاون کرتی تھیں اور انہیں نقد عطیات کے علاوہ مادی امداد بھی بھجواتی تھیں۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے پاکستانیوں کی جس لگن اور جذبے سے خدمت کی، اس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1988ء میں انہیں پاکستانی شہریت سے نوازا۔

میری ایڈیلیڈ سینٹر اب آٹھ منزلہ عمارت میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں اب ان کے بہت سے سابق مریضوں کی اولادیں یعنی ان کے بیٹے بیٹیاں بھی کام کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے صرف جذام کے مریضوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے نہیں بلکہ تپ دق، جزوی بینائی کے مریضوں کی تن درستی کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے ہر طرح کے مشکل حالات میں پاکستانی قوم کی مدد کی اور وہ دکھی لوگوں کی داد رسی کے لیے فوری نکل پڑتی تھیں، چاہے سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلہ یا دیگر قدرتی آفات، وہ متاثرہ علاقوں اور افراد تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتی تھیں، بروقت اور سرعت کے ساتھ وہاں جا کر امدادی کیمپ لگاتیں اور متاثرہ لوگوں کو ضروری امداد فراہم کرتیں۔

پاکستان کا یہ قیمتی خزانہ، عظیم انسانی خدمت گزار اب دنیا میں نہیں رہا۔ ان جیسا بے لوث جذبہ پیدا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کبھی اس نقصان کی تلافی نہیں کر سکتا۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ
 ان کے کام انہیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے

1960 میں کراچی کے علاقے میکلوڈ روڈ کی عقبی تاریک گلیوں میں کوڑھیوں کی بستی کے باہر، سڑک پر کھڑے گندے پانی پر نظریں ٹکائے، چند لمحات تک الجھن میں رہنے کے بعد جرمن راہبہ نے دھتکارے ہوئے انسانوں کی دنیا میں قدم رکھا تو پھر ایک ایسی کہانی بنتی چلی گئی جس نے دنیا میں ہلچل مچادی۔

مادام فاؤ کی زیست پر اساطیر کا گمان ہوتا ہے۔ نصف صدی قبل، ہندوستان جانے کی خواہش لیے، کراچی کی زمین پر قدم رکھنے والی اس خاتون نے جب ذلتوں کے مارے کوڑھیوں کی جانوروں سے بدتر زندگی کا ہیبت ناک مشاہدہ کیا تو یہیں ٹھہرنے اور خود کو سسکتی انسانیت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا کہ کہا گیا ہے، ’’تن درستوں کو طبیب درکار نہیں ہوتے، بلکہ بیماروں کو! (متی)‘‘

میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر کی اس بانی نے جذام کے تعاقب میں ملک کے دور دراز علاقوں کا کٹھن اور ناقابل یقین سفر کیا، اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک ابن مریم کی سنت پر عمل پیرا رہیں۔ وہ اب ہماری دنیا سے جاچکی ہیں لیکن اس بات کی مستحق ہیں کہ اس زمین کی بیٹیاں ان کے لیے گیت گائیں، اور بیٹے ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔

8 مئی 1945 کو جب جرمنی کی فوج نے ہتھیار ڈالے، روتھ سولہ برس کی ہوچکی تھیں۔ ظالمانہ آمریت سے آزادی حاصل کرنے والے ان کے ملک پر اب اتحادی فوج کا قبضہ تھا۔ سرد جنگ کے آغاز نے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، اور سرحد پر آہنی پردہ تان دیا۔ معاشی مسائل انتہائی سنگین تھے، غذائی اجناس کا شدید بحران تھا، جس نے روتھ فاؤ کا اکلوتا چھوٹا بھائی چھین لیا۔ اس زمانے میں روتھ نے بیماروں کی تیمارداری میں خاصا وقت صرف کیا۔ ’’نیشنلائزیشن‘‘ کا وار سہنے کے بعد والتھر فاؤ کے لیے دوسرا بڑا صدمہ یہ تھا کہ بیٹی کی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست رد کردی گئی ہے۔

دل برداشتہ ہوکر انھوں نے مغربی جرمنی کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بہ حفاظت ’’ویس بیڈن‘‘ پہنچ کر پھر پبلشنگ کا کاروبار اختیار کیا، اور پیاری بیٹی کو وہاں آنے کا سندیسہ بھجوایا۔  وہ ایک کٹھن مرحلہ تھا کہ سرحد پر روسی فوج کا کڑا پہرا تھا۔ مختصر سے سامان کے ساتھ، ذہن میں ہزاروں خدشات لیے وہ ٹرین میں سوار ہوئیں۔ پیدل جنگلات، کھیت اور دشوار گزار راستے عبور کرتے ہوئے جب سرحد پر پہنچیں، تو دو ہتھیار بند فوجیوں نے انھیں روک لیا، جن میں سے ایک روسی تھا، دوسرا جرمن! روسی فوجی بے ضرر لڑکی کے خلاف انتہائی اور فوری کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اور یہیں قدرت نے مداخلت کی! جرمن فوجی نے ’’مجرم‘‘ کے خلاف کارروائی کرنے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر لیتے ہوئے ساتھ چلنے کی ہدایت کی، اور تھوڑی دور جانے کے بعد ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی کی، ’’مغرب اس طرف ہے!‘‘

معاشی مسائل کا مقابلہ کرتے والد کی خواہش تھی کہ بیٹی کاروبار میں ہاتھ بٹائے، لیکن انھیں اس کام میں دل چسپی نہیں تھی۔ پناہ گزین اور زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال کے تجربے نے روتھ کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اکسایا۔ Mainz یونیورسٹی سے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد مایوگ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ اس دوران ایسے افراد سے ملنے کا موقع ملا، جنھوں نے زندگی کے نئے معنی سمجھائے، اور دوسروں کے لیے جینے کی خواہش کو مہمیز کیا۔ دھیرے دھیرے مذہب کی جانب رجحان بڑھنے لگا۔ بون یونیورسٹی سے گائناکولوجی میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد انھوں نے بہ طور انٹرنی کام شروع کردیا۔ بالآخر وہ مقدس لمحہ آ ہی گیا، جب انھوں نے خود کو کلی طور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہوئے راہبہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔ شفیق والد نے مخالف کی، تاہم والدہ نے ’’خدا کی مرضی‘‘ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی پشت پناہی کی۔

اسی زمانے میں انھیں والد کے انتقال کا سانحہ برداشت کرنا پڑا۔ تدفین میں شرکت کرنے کے بعد جب پیرس پہنچیں تو پتا چلا کہ ویزا ملنے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں۔ کسی نیک بخت نے کراچی جانے کا مشورہ دیا کہ وہاں سے ویزے کا حصول نسبتاً آسان ہے۔ وہ 8 مارچ 1960 کی عام سی دوپہر تھی، جب اس فرشتہ صفت خاتون نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ ابتدائی تجربات زیادہ حوصلہ افزاء نہیں تھے۔ ناقابل برداشت گرمی اور تھکا دینے والے سفر کے بعد، جب آرام کرنے کی خواہش لیے گرومندر پر قائم گرلز ہاسٹل پہنچیں تو کھانے سے قبل دعائیہ عمل کا حصہ بننے کی ہدایت کی گئی۔

رات بھر گرمی اور ساتھ والے کمرے میں رکھے ریڈیو سے بلند ہوتے شور نے پریشان رکھا۔ ابلاغی رکاوٹیں بھی حائل تھیں۔ وہیں میکسیکو سے تعلق رکھنے والی سسٹر بیرنس وارگس سے ملاقات ہوئی، جو فارماسسٹ تھیں۔ انھوں نے میکلوڈ روڈ (موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ) پر جذام کے مریضوں کے لیے چھوٹی سی ’’میری ایڈیلیڈ ڈسپنسری‘‘ قائم کر رکھی تھی۔ سسٹر بیرنس نے 55ء میں آرچ بشپ آف کراچی کی درخواست پر پہلی بار کوڑھیوں کی بستی کا دورہ کرنے کے بعد خود کو اس کام کے لیے وقف کردیا تھا۔

سسٹر بیرنس نے روتھ کو کوڑھیوں کی بستی کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جہاں ناقابل بیان اذیت ناک مناظر منتظر تھے۔ جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھ کر انھوں نے ذلتوں کے مارے ان انسانوں کے لیے خود کو وقف کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ جذام کی بابت انھیں زیادہ علم نہیں تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بیماری تقریباً ناپید تھی۔ ابتداً چند کتابوں کا مطالعہ کیا، پھر ’’شارٹ کورسز‘‘ کرنے کی غرض سے مدراس، ہندوستان، پہنچ گئیں۔

پاکستان واپسی پر، گھر سے دور، اجنبی اور گرم ماحول میں، ایک جھگی میں ان کوڑھیوں کا علاج شروع کیا، جنھیں ناقابل علاج تصور کیا جاتا تھا۔ اس وقت جیب میں فقط بیس روپے تھے۔مختصر سے ابتدائی فنڈ کے بعد ’’میری ایڈیلیڈ لپروسی سینٹر‘‘ رجسٹرڈ کروایا گیا۔ اس زمانے میں، جب متعدی خیال کیے جانے کے سبب، جذام کے مریضوں کے نزدیک جانے کا تصور بھی محال تھا، ان باہمت خاتون  نے عظیم مقاصد کے لیے روشن جدوجہد شروع کی۔کچھ عرصے بعد جرمن اخبار میں ان کی کہانی شایع ہوئی، جس کے بعد ’’جرمن لپروسی ریلیف ایسوسی ایشن‘‘ کو ان کی سن گن ملی، یوں ’’فنڈنگ‘‘ کا سودمند سلسلہ شروع ہوا۔

اپریل 63ء میں صدر کے علاقے ریگل چوک میں ایک منزلہ اسپتال قائم ہوا۔ 65ء میں ان کی ٹیم نے ’’لپروسی کنٹرول پروگرام‘‘ شروع کیا، پہلا سینٹر لاڑکانہ میں قائم ہوا، اگلی منزل میرپورخاص تھا، پھر پیر بابا (سرحد) میں کام کیا۔ اب ’’نیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فور لپروسی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دوران سرحد اور کشمیر کی دشوار گزار گھاٹیاں اور پہاڑ عبور کیے، بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں بھی خاصا کام کیا۔ 68ء میں حکومت نے ’’لپروسی کنٹرول پروگرام‘‘ کو ’’نیشنل پروگرام‘‘ کی حیثیت دے دی، یوں رسائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس دوران جرمنی بھی آنا جانا رہا کہ اس کام کے لیے سرمائے کا حصول ضروری تھا۔

جذام کے دکھی مریضوں کو سینے سے لگانے والی مادام فاؤ نے اپنے کام کو پاکستان تک محدود نہیں رکھا۔ 89ء میں انھوں نے یورش زدہ افغانستان میں کام شروع کیا، جہاں کابل کے اردگرد ہزاروں افراد اس عذاب میں مبتلا تھے۔ طالبان کے کٹھن دور میں کام کرنا اس باہمت عورت کا بڑا کارنامہ تھا۔ پاکستان میں قائم افغان کیمپوں میں بھی خاصا کام کیا۔ راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئیں، لیکن وہ بغیر رکے کام کرتی ہیں۔ ابلاغی رکاوٹیں بھی جذبے کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہیں۔

پاکستان کو اپنا گھر کہنے والی روتھ فاؤ کو قتل و غارت گری، دھماکوں اور ہلاکتوں کی خبریں افسردہ کر دیتی تھیں۔

مادام کے دن کا آغاز صبح پانچ بجے ہوتا تھا، دعا کے بعد آٹھ بجے دفتر میں پہنچ جاتیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے شلوار قمیص میں نظر آنے والی روتھ فاؤ ہلکے رنگوں کا چناؤ کرتی تھیں۔ ساری عمر یہ کہتی رہیں کہ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملی تو پھر پاکستان آؤ گی، تاکہ انسانیت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکوں۔ یہ مادام اب ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکی ہیں، وہ خود تو ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کے کام اور ان کی خدمات انہیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔