برابری کا سبق

کوثر جبیں  اتوار 13 اگست 2017
ہمیں ایک ایسا مختلف معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں مرد و خواتین دونوں مطمئن اورخوش رہیں، دب کر یا ڈر کر نہیں بلکہ کھل کر جئیں، دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں۔

ہمیں ایک ایسا مختلف معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں مرد و خواتین دونوں مطمئن اورخوش رہیں، دب کر یا ڈر کر نہیں بلکہ کھل کر جئیں، دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں۔

ایک زمانہ تھا، جب جسمانی طور پر طاقتور کو دنیا میں غلبہ حاصل تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج دنیا ایک مختلف شکل اختیار کرچکی ہے۔ آج وہی انسان طاقتور ہے جو زیادہ ذہین، جدت پسند اور تخلیقی ذہن کا مالک ہے۔ آج کی دنیا میں ذہانت کی حکمرانی ہے، اور مرد و زن کی ذہنی صلاحیتیں کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی مرد جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہیں لیکن آج کی دنیا میں کامیابی کا معیار جسمانی طاقت نہیں۔

صدیوں سے دنیا میں مرد و خواتین مل جل کر نظامِ زندگی چلا رہے ہیں۔ دونوں نے کام کاج بھی بانٹے ہوئے تھے، صدیوں سے رائج ہے کہ جسمانی محنت والے کام مرد کیا کرتے اور عورت گھر گرہستی سنبھالتی مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ انسان ہی ہیں جو ِان رواج کو بناتے ہیں تو وہ اِنہیں تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دنیا اور اُس کے رواج بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ جن سے ہم آہنگ ہونا معاشرے کی ترقی و بہتری کے لیے بھی ضروری ہے اور انسانیت کے لیے بھی،
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم صدیوں سے ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔

ٹھہرے ہوئے پانی میں بدبو آجاتی ہے اور اِسی لیے ہم کچھوے سے بھی کم رفتار سے ترقی کے سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ جب ملک کی آدھی آبادی کو اُن کی صلاحیتوں کے مطابق کام کا موقع نہیں دیا جائے گا تو ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کیونکر شامل ہوپائیں گے؟ مانا کہ عورت، مرد ایک دوسرے جسمانی ساخت، جنسی اعضاء، ہارمونز اور کئی جسمانی افعال کے لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن برتر اور کم تر نہیں۔ قدرت نے عورت و مرد کو ایک دوسرے کا مددگار بنایا ہے، مالک و غلام نہیں۔ پھر یہ صنفی امتیاز کیوں؟ جو کام مرد کرسکتے ہیں وہ عورتیں بھی کرسکتی ہیں اور اُسی طرح جو کام عورتیں کرسکتی ہیں، مرد بھی کرسکتے ہیں۔

کھانا پکانے کی مثال لیجیے۔ کیا کھانا پکانا عورتوں کے جین میں شامل ہے؟ اگر ہے تو پھر دنیا کے بہترین کھانا پکانے والے شیف حضرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بلکہ مرد کے ہاتھ میں جو ذائقہ ہوتا ہے وہ کسی خاتون کے ہاں نہیں ملتا۔

معاشرے اور فرد کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرے گا لیکن صرف کہنے کی حد تک۔ یہاں بھی ہم لڑکے اور لڑکی میں تفریق کرتے ہیں۔ لڑکا چاہے نکما ہو، نالائق ہو، لا پرواہ ہو، اُس کو پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ ہو لیکن زبردستی کرکے، اضافی خرچہ کرکے، ٹیوشن دلوا کر، پرائیوٹ کالجوں اور نجی جامعات میں پڑھوایا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف اگر لڑکی ذہین ہو، پڑھنے کی شوقین ہو، قابلیت کی بنیاد پر سرکاری اداروں میں تعلیم (یعنی سستی تعلیم) حاصل کرنے کے قابل بھی ہو تو بھی تو یہ کہہ کر گھر بِٹھا دیا جاتا کہ کون سا ہمیں نوکری کروانا ہے، زمانہ خراب ہے، لڑکیوں کو باہر بھیجنا ٹھیک نہیں، لڑکی کے دماغ آسمان پر پہنچ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ایسے لوگوں کو گھما پھرا کر کہنے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ

’’زیادہ پڑھ گئی توسوچنا شروع کردے گی، بولنا شروع کردے گی، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا شروع کردے گی۔‘‘

ہمیں ایک ایسا مختلف معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں مرد و خواتین دونوں مطمئن اورخوش رہیں، دب کر یا ڈر کر نہیں بلکہ کھل کر جئیں، دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں۔

اِس کے لیے ہمیں اپنے بچوں کی پرورش مختلف انداز میں کرنا ہوگی۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ کہ یہاں اولاد کو اولاد سمجھ کر نہیں بیٹا اور بیٹی سمجھ کر پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کو صرف مردوں کی خدمت کرنے کے لیے، گھر سنبھالنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ آج لڑکیاں تعلیم بھی حاصل کرنے لگی ہیں، نوکری بھی کرنے لگی ہیں، نام بھی کمانے لگی ہیں، کیریئر بھی بنانے لگی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے بھی لگی ہیں لیکن آج بھی بنیادی طور پر لڑکیوں کی تربیت اِس طرز پر کی جاتی ہے کہ وہ دب کر رہیں، آدمیوں سے آگے نکلنا تو دور کی بات، ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ خواتین بھی انسان ہیں جیسے کہ مرد انسان ہیں۔

جبکہ دوسری طرف ہم اپنے بیٹوں کو مردانگی سکھاتے ہیں۔ ہم انہیں مردانگی کے پنجرے میں بند کردیتے ہیں، ہم اُن میں کبھی کمزور نہ ہونے کا ڈر پیدا کردیتے ہیں حالانکہ وہ بھی انسان ہیں، انہیں درد بھی ہوتا ہے اور انہیں سہارا، ہمدردی کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہیں کرسکتے۔ اُن کے اوپر مردانگی قائم رکھنے کے لیے کمزور نہ پڑنے کا دباؤ ہوتا ہے۔ اُنہیں اپنا اصل چھپانا پڑتا ہے۔ ہم اُنہیں منافق بنادیتے ہیں، ہم اُنہیں انسان کے بجائے صرف مرد ہی بناتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی ہر اولاد (بیٹا یا بیٹی) کو سب سے پہلے انسان بنائیں۔

ہمیں اپنی اولاد کی پرورش اُن کی قابلیت کی بنیاد پر کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے آپ کے بیٹے میں گھر سنبھالنے کی صلاحیت ہو، کھانا پکانے کی خوبی ہو اور آپ زبردستی اُسے ڈاکٹر، انجینیئر بنانا چاہ رہے ہوں۔ آپ کی بیٹی میں ڈاکٹر، انجینئیر بننے کی خواہش کے ساتھ ساتھ قابلیت بھی موجود ہو، لیکن آپ اُسے کھانا پکانے کا ماہر بنانا چاہتے ہوں۔ اِس صورت میں دونوں ہی اپنی ذات کا نہ تو اظہار کرپائیں گے اور نہ ہی حقیقی طور پر خوش رہ پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔