پاکستان کے 70 سنہری حقائق (چودہویں اور آخری قسط)

ایکسپریس اردو بلاگ  پير 14 اگست 2017
پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر یہ خصوصی سلسلہ یکم اگست سے شروع کیا گیا اور آج 14 اگست کے روز اپنی آخری قسط کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق/ اعزازات جنہیں پڑھ کر آپ کا سر فخر سے یقیناً بلند ہوجائے گا۔


پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (بارہویں قسط)

پاکستان کے 70 سنہری حقائق (تیرہویں قسط)

تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستان سے پاکستان کی جانب مسلمانوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ درحقیقت یہی تھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی آباد کاری اور بحالی کا کام کس طرح کیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ افراد نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور اِن ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔

محض یہ ہجرت نہیں تھی بلکہ خون کا دریا پار کرنے کے مترادف بھی تھا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اِس تقسیم اور ہجرت کے دوران 5 سے 8 لاکھ افراد نے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ظالموں نے تو عورتوں کی عزتوں کو بھی نہیں چھوڑا اور اِسی ہجرت کے دوران ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ تقسیم کے دوران کم از کم نوے ہزار عورتیں اغواء بھی کی گئیں۔ ان ہی فسادات، خون ریزی اور ظلم و زیادتی کی جھلک پاکستان اور بھارت دونوں کے ادیبوں کی پنجابی، ہندی اور اردو زبان میں لکھی گئی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔ امرتا پریتم، سعادت حسن منٹو، خشونت سنگھ اور اشفاق احمد کی تحریریں اِس پُردرد ہجرت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔

 

قائد اعظم کی تنخواہ ’ایک روپے‘ ماہانہ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ نہ صرف بانی پاکستان کی حیثیت سے لائق احترام اور بلند مرتبے پر فائز ہیں بلکہ محمد علی جناح کی نفیس شخصیت، اصول پسندی اور اعلیٰ کردار بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

بیس برس کی عمر میں قائد اعظم ممبئی میں ایک نوجوان وکیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔ 1900ء میں برطانوی چیمبر میں سر چارلس کے چیمبر میں ملازمت کی تو تنخواہ 1500 روپے ماہوار مقرر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے وقت قائداعظم محمدعلی جناحؒ برصغیر کے کامیاب ترین وکلاء میں شامل تھے اور تب ان کی ماہانہ آمدنی بھی لاکھوں روپے ماہانہ تھی۔ اس کے باوجود، جب قائداعظمؒ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو اپنے لیے ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ مقرر کی۔ اس بارے میں قائداعظمؒ فرمایا کرتے تھے کہ گورنر جنرل کا عہدہ دراصل ایک ذمہ داری ہے جس کی حیثیت اعزازی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے انہوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ ایک روپیہ مقرر کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ پاکستان پر کوئی احسان نہیں کررہے۔ یہ قائد اعظم کی بے غرضی اور پاکستان سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم سب اور خاص کر ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے شفاف کردار سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت، اقتدار اور قابلیت کے باوجود بھی عظیم رہنماؤں کا شیوہ یہی ہوا کرتا ہے۔

وہیل کا ارتقاء اور پاکستان

سیارہ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا ممالیہ (دودھ پلانے والا جانور) وہیل ہے جس کے ارتقائی مراحل کے حوالے سے پاکستان کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہیل کا جدامجد آج سے تقریباً 5 کروڑ سال پہلے (موجودہ) پاکستان کے شمالی علاقے میں ’’کالا چٹا‘‘ پہاڑی کے مقام پر پایا جاتا تھا اور اسے ’’پاکی سیٹس‘‘ (پاکستانی وہیل) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کتے جتنی جسامت کا ممالیہ تھا جو غالباً دریا کے کنارے رہا کرتا تھا۔ وہیل کے ارتقاء میں دوسرا اہم نام ’’ایمبیولوسیٹس‘‘ (چلنے والی وہیل) کا ہے جس کے رکازات پنجاب میں ’’کلدانا فارمیشن‘‘ کے مقام سے ملے ہیں۔ یہ آج سے تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے یہاں پایا جاتا تھا اور تب یہ جگہ ساحلِ سمندر پر واقع ہوتی تھی۔ ایمبیولوسیٹس کسی چھوٹے مگرمچھ کی طرح دکھائی دیتا تھا جبکہ غالباً یہ اپنا زیادہ وقت پانی میں گزارا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی اور وسطی پاکستان، اور مغربی بھارت سے بھی ’’کچھی سیٹس‘‘ (کچھی وہیل) نامی معدوم جانوروں کے رکازات ملے ہیں جو یہاں 4 کروڑ 30 لاکھ سے 4 کروڑ 80 لاکھ سال پہلے کے زمانے میں رہتے تھے۔ یہ آج کی وہیل سے زیادہ قریب تھے لیکن جسامت میں خاصے چھوٹے تھے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف مقامات سے وہیل کے ارتقائی رکازات (فوسلز) ملے ہیں جو ان ہی کے سلسلے میں ہیں۔ ان تمام دریافتوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جدید وہیل نے اپنے ارتقاء کی اہم ترین منزلیں ان مقامات پر طے کیں جو آج پاکستان کا حصہ ہیں؛ جو اپنے آپ میں ایک منفرد اعزاز ہے۔

 

سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی

آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ’’مریچھا‘‘ (Mareecha) نسل کی اونٹنی کو دنیا میں سب سے زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی بھی قرار دیا جاتا ہے جو اوسطاً 22 لیٹر یومیہ کی شرح سے 270 دن تک دودھ دے سکتی ہے جبکہ یہ عرصہ زیادہ سے زیادہ 540 دن تک ہوسکتا ہے۔ اپنی اسی خوبی کی بناء پر مریچھا اونٹنی کو مشرقِ وسطی اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ چولستان کے صحرائی علاقے میں بھی مریچھا اونٹنیوں سے دودھ کی سالانہ اوسط پیداوار 4179 لیٹر حاصل کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ برائے غذا و زراعت (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ اگر اونٹ کی افزائشِ نسل پر توجہ دی جائے تو مستقبل میں دنیا کو غذائی مسئلے سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔

 

 

مقبول ترین ملی نغمہ؛ دوسرا قومی ترانہ

1987 میں پاکستان کی 40 ویں سالگرہ کے موقعے پر پاکستان ٹیلی ویژن سے ملی نغمہ ’’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘‘ پہلی بار نشر ہوا۔ نثار ناسک کی شاعری ہر مشتمل، شعیب منصور کی ہدایات میں فلمایا جانے والا یہ قومی نغمہ اس وقت کے نوجوان پاپ بینڈ ’’وائٹل سائنز‘‘ (Vital Signs) نے گایا تھا جس میں جنید جمشید، روحیل حیات، نصرت حسین اور شہزاد حسن شامل تھے۔ یہ نغمہ اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ اس نے ’’پاکستان کے دوسرے قومی ترانے‘‘ کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرلی۔ آج پاکستان کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے اور ’’دل دل پاکستان‘‘ کو بھی 30 سال پورے ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس نغمے کی تازگی بالکل اسی طرح برقرار ہے جیسے پہلی بار نشر ہونے پر تھی۔ بی بی سی کے مطابق 2003 میں کیے گئے ایک آن لائن سروے میں ’’دل دل پاکستان‘‘ کو مقبول ترین پاکستانی نغمے کا اعزاز حاصل ہوا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔